نہ جانے کیوں مجھے سچ بولنے کی عادت ہے

0
52

نہ جانے کیوں مجھے سچ بولنے کی عادت ہے
یہ جان کر کہ ہر اک گام سر قلم ہوگا

رشیدہ عیاں
رشیدہ عیاں کا اصل نام سیدہ رشیدہ بیگم ہے وہ کہنہ مشق، مشہور، پُرگو شاعرہ اور نثر نگار تھیں 04 مارچ 1932ء میں اتر پردیش مراد آباد میں پیدا ہوئیں انھوں نے جوش اور جگر کے ساتھ مشاعرے پڑھے تھے۔ شاعری کا سفر 1951 سے شروع ہوا۔

کتابیں:حرف حرف آئینہ- کرن کرن اجالا- آئینوں کےچہرے- ابھی پرواز جاری ہے- سوچ سمند-حرف اعتبار- موسموں کے بدلتے رنگ (شعری مجموعے)- روشنی کا سفر(کلیات،دو جلدیں)۔ میری کہانی(منظوم سوانح)- فانوس ہفت رنگ (نعتیں)- سنگم (گیتوں کا مجموعہ)۔ عشق پر زور نہیں- جائزہ(مثنوی)- شمیم کے نام (یادیں)۔

پاکستان اورامریکہ میں متعدد اعزازات سےنوازی گئیں: میرتقی میرؔ ایوارڈ برائے اردو غزل1988 نیشنل ایسوسی ایشن آف پاکستانی امریکن، اعزاز برائے خدمت اردو زبان و ادب1991-کمیونٹی سروس اچیومینٹ ایوارڈ پاکستانی ٹیلی ویژن نیٹ ورک نیویارک 2000- خیبر سوسائیٹی آف یو ایس اے، نیو یارک 2002 اور کئی دیگراعزازات۔

غزل
۔۔۔۔۔
مرے قلم کا اگر سر کبھی قلم ہوگا
نیا فسانۂ درد و الم رقم ہوگا
یہ مانتی ہوں مٹا دے گا میرا دور مجھے
نئے زمانے کا اس خاک سے جنم ہوگا
میں اپنے آپ کی پہچان بھول بیٹھی ہوں
اب اس سے اور بڑا کیا کوئی ستم ہوگا
نہ جانے کیوں مجھے سچ بولنے کی عادت ہے
یہ جان کر کہ ہر اک گام سر قلم ہوگا
چلو اٹھاتے ہیں ایوان وقت کا ملبہ
اسی میں دفن مری ذات کا صنم ہوگا
فلک نے موند لیں آنکھیں زمیں نے روکی سانس
عیاںؔ کا آج نئی راہ پر قدم ہوگا

غزل
۔۔۔۔۔
ہر ایک دور میں منظر بدلتے رہتے ہیں
ہماری فکر کے محور بدلتے رہتے ہیں
حریم جاں کو منور کریں گے کیا وہ چراغ
کہ جن کے طاق برابر بدلتے رہتے ہیں
نہ حوصلہ تھا جنہیں قسمتیں بدلنے کا
وہ کم سواد فقط گھر بدلتے رہتے ہیں
طرح طرح کے ملے زخم دل تو حیرت کیا
کہ چارہ ساز بھی نشتر بدلتے رہتے ہیں
عجیب شخص مری زندگی میں آیا ہے
کہ جس کے پیار کے محور بدلتے رہتے ہیں
کبھی بقا کا جزیرہ کبھی فنا ساحل
سفینہ ایک ہے لنگر بدلتے رہتے ہیں
گریں درخت سے پتے تو کیوں خزاں کہئے
لباس ہی تو ہیں اکثر بدلتے رہتے ہیں
ہمارے دور میں ایسے پرند بھی ہیں عیاںؔ
کہ رت کے ساتھ ہی وہ پر بدلتے رہتے ہیں

غزل
۔۔۔۔۔
اسی کی ہو گئی ہوں رفتہ رفتہ
اسی میں کھو گئی ہوں رفتہ رفتہ
میں کشت زیست میں فصلوں کی صورت
کچھ آنسو بو گئی ہوں رفتہ رفتہ
گزاری ہیں ہزاروں دکھ کی راتیں
بہادر ہو گئی ہوں رفتہ رفتہ
ستم سہہ کر رہی خاموش صدیوں
وہ سمجھا سو گئی ہوں رفتہ رفتہ
میں ہو کر بے خطا مجرم ہی ٹھہری
تو باغی ہو گئی ہوں رفتہ رفتہ
جفا خو سے وفائیں کرتے کرتے
دوانی ہو گئی ہوں رفتہ رفتہ
عیاںؔ پتھر کے سینے میں ٹھہر کر
میں پانی ہو گئی ہوں رفتہ رفتہ

Leave a reply