2025 کا آغاز پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا موڑ لے کر آیا ہے۔ وہی سیاست جو "ووٹ کو عزت دو” کے نعروں سے گونج رہی تھی، آج نعروں کی گونج سناٹوں میں بدل کر اک نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔ نواز شریف کی واپسی کے بعد ن لیگ جن خوابوں کا تانا بانا بُنتی نظر آتی تھی، اندھے کے وہ خواب بہت بڑا سوالیہ نشان بنے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف کے جلسے، ایئرپورٹ پر عدالتی کارروائیاں، اور مینارِ پاکستان پر سرکاری جلسے کے مناظر کسی بڑی سیاسی حکمت عملی کا عندیہ تو دیتے تھے، مگر یہ حکمت عملی خود ن لیگ کی سیاست کے لیے کتنی کامیاب رہی؟ اس کا جواب کھلی کتاب کی طرح سامنے آچکا ہے۔
پی ٹی آئی کی کہانی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ 2023 کے انتخابات کے بعد جس طرح پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی، وہ نہ صرف بانی تحریک انصاف کے بیانیے کو تقویت دے گئی بلکہ اس نے عوام کی حمایت کو بھی ایک نئی سمت دی۔ آج وہی پی ٹی آئی جو کبھی اپنی شناخت کے بحران سے گزر رہی تھی، ایک بار پھر ملک کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت بن چکی ہے۔
نواز شریف کی وطن واپسی کی شرائط جن میں نیب قوانین میں تبدیلیاں، کیسز کا خاتمہ، اور عدلیہ پر کنٹرول شامل تھے، ایک طرف عوام کو حیران کرتی رہیں تو دوسری جانب ان کی سیاسی حکمت عملی اور سیاسی نظریات کو بھی کمزور کرتی رہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف، جو ہر طرح کے دباؤ اور مشکلات کے باوجود اپنی جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی، اب حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھی ہے۔ لیکن یہ مذاکرات کیا نتیجہ خیز ہوں گے؟ یا یہ بھی سیاسی داؤ پیچ کا ایک حصہ ہیں؟
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج پاکستان کی سیاست ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کا غیر متزلزل بیانیہ کہ وہ کسی قسم کی "ڈیل” نہیں کریں گے، ان کے حامیوں میں نئی امید پیدا کرتا ہے۔ لیکن پس پردہ جو کچھ چل رہا ہے، وہ عوام کے ذہنوں میں سوالات کو جنم دیتا ہے۔
ن لیگ کے دعوے اور پی ٹی آئی کے جوابی بیانیے نے سیاست میں ایک دلچسپ کشمکش کو جنم دیا ہے۔ یہ کشمکش صرف سیاسی جماعتوں کی بقا کی جنگ نہیں بلکہ عوامی شعور اور مستقبل کی سیاست کی سمت کا تعین بھی کرے گی۔ کیا تحریک انصاف کے مطالبات حکومت مان لے گی؟ کیا ن لیگ ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی عوامی مقبولیت و حمایت واپس حاصل کر سکے گی؟۔ قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر بقول ماما پھلا، جلد ہم نواز شریف یہ کہتے پائے گے،”نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم”