"نامکمل زندگی” — ریاض علی خٹک

شیر شاہ کراچی میں کار کی پسنجر سیٹ پر انتظار کرتے شیشے سے دیکھا ایک لمبا تڑنگا مجہول سا سادہ آدمی مجھے غور سے دیکھ رہا ہے. آنکھیں چار ہوئیں تو وہ میری طرف بڑھا. سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دماغ نے کئی تجزیے کر ڈالے. یہ خطرناک علاقہ ہے لوٹنے والا نہ ہو.؟ یہ ضرور اب کچھ مانگے گا.؟ سیل فون بٹوہ کہاں ہے؟ کیا اوپری جیب میں کچھ کھلے پیسے ہیں؟

وہ آدمی جب پہنچا تو اس نے پوچھا باو جی خیریت تو ہے؟ کوئی مسئلہ تو نہیں. میں نے کہا نہیں بھائی سب ٹھیک ہے دوست کا انتظار کر رہا ہوں. اس نے بند مٹھی میں مکئی کے دانے پکڑے تھے جو وہ کھا رہا تھا. اس نے کچھ شرمندگی سے کہا باو جی کھاو گے.؟ میں نے کچھ دانے لئے اور کہا کیوں نہیں بس بھائی دعا کرنا میری نظر کچھ کمزور ہے.

سچی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی ہی نظر کمزور ہیں. ہم فوری دوسروں پر دیکھ کر ایک رائے بناتے ہیں اور اپنی سوچ و رائے کو ختمی سمجھ لیتے ہیں. یہی حال اسپیشل لوگوں پر معاشرتی سوچ کا ہے. ہم ان کو معذور سمجھ کر زندگی کا بوجھ سمجھ لیتے ہیں. ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ اللہ جس نے ہمیں اگر مکمل بنایا تو اپنے ایک دوسرے بندے کو نامکمل کیوں بنایا.؟

اللہ رب العزت انسانیت کی تصویر مکمل کرنے کیلئے ہمیں خالی جگہیں دیتا ہے. ان خالی جگہوں پر ان اسپیشل لوگوں کو مکمل سمجھ کر جب ہم جگہ دیتے ہیں تو تصویر مکمل ہوتی ہے. معاشرے کی سوچ جب معذور ہو جائے تب یہ خالی جگہیں نامکمل رہتی ہیں اور معاشرہ ٹھوکر پر ٹھوکریں کھاتا چلا جا رہا ہوتا ہے.

ہماری بہن حنا سرور کی کتاب نامکمل زندگی بھی ایک شاندار اسپیشل شخصیت کی یہی سمجھاتی کوشش ہے. اسے مکمل پذیرائی دے کر اپنی بینائی کا ثبوت دیں. زندگی آپ کو بڑے بڑے عالم اور لکھاری فلسفی نہیں سمجھا سکتے. زندگی ہمیشہ عام لوگوں کی عام باتوں پر سمجھ آتی ہے بس اگر آپ کی نظر ٹھیک ہو.

Comments are closed.