بتاریخ 8 فروری 2025 بروزہفتہ ایکسپوسنٹر لاہور کتاب میلے میں محبت کرنے والوں کی طرف سے دعوت پر ڈاکٹر عمران مشتاق کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں شرکت کا موقع میسر آیا جہاں بچوں کے اکثر ادیبوں میں یہ نعرہ زبان زدعام نظر آیا ” نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا” جس کا مفہوم و مطلب یہ بنتا ہے کہ کسی کام، خدمت یا مشن کو سراہے جانے یا اعزاز و اجرت ملنے کے بغیر خدمات کے تسلسل کو برقرار رکھا جائے لیکن میری نظر میں یہاں معاملہ ذرا مختلف ہے۔
ہمارے یہاں ہر کسی کے کام کو سراہا بھی جاتا ہے، ایوارڈز و نقدی کی صورت میں نوازا بھی جاتا ہے اور محبت و الفت کے نذرانے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اب گزشتہ روز کی تقریب کو ہی دیکھ لیا جائے تو راقم خود گواہی دے سکتا ہے کہ اس تقریب میں بہت سے اہلیان قلم کو ایوارڈز، شیلڈز و نقدی سے نوازا بھی گیا، ان کے کام کو سراہا بھی گیا حتی کہ جو خواتین و حضرات کسی مجبوری کے باعث تقریب میں شرکت کرنے سے قاصر تھے ان کا انعام و اعزاز، ایوارڈ و نقدی کی صورت میں کسی دوسرے ساتھی کو اس پابندی کے ساتھ تھمایا گیا کہ متلعقہ قلم کار تک امانت لازما پہنچ جائے۔

اس کے باوجود اگر پھر بھی یہی کہا جائے کہ کوئی پذیرائی نہیں ہورہی، سراہا نہیں جارہا تو سراسر غلط ہے۔ جناب آپ کو تو ستائش و صلے کی ضرورت ہی نہیں تو پھر کیوں اعتراض کرتے ہیں کہ پذیرائی نہیں مل رہی۔بلکہ آپ کو تو ملنے والا ایوارڈ و نقدی بھی یہ کہہ کر واپس کردینی چاہیے کہ "نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا” لیکن اگر آپ وصولی بھی ڈال لیتے ہیں اور ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں تو یہ آپ اپنے اس نعرے کے بھی الٹ سمعت میں جارہے ہیں اور جو لوگ محبت میں آپ کی پذیرائی کررہے ہیں، ایوارڈز و نقدی کی صورت میں آپ کے کام کی قدر کررہے ہیں اور کھڑے ہو کر آپ کو ویلکم کرکے آپ کی عزت افزائی کررہے ہیں ان کے ساتھ بھی سراسر زیادتی ہے۔

آج اس دور میں جو وقت نکال کر دور دراز کا سفر کرکے آپ کی محبت میں پہنچ جائےکوئی کم تو نہیں۔ بھئی جتنا آپ کو سراہا جا رہا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اپنا کام جاری و ساری رکھیں۔۔۔اور اگر آپ اپنے کام کے عوض تنخواہ چاہتے ہیں تو کوئی ملازمت اختیار کرلیں یا کوئی بزنس کرلیں۔۔۔۔۔اور دوسری بات کتابوں کے حوالے سے کہ آج کتاب کی قیمت پر بھی ذرا غور کریں۔۔۔۔آپ کتاب کو خدمت کےلیے لکھ رہے ہیں یا کاروبار کےلیے؟ اکثر رائٹرز و پبلشرز نے تو کتاب کی قیمت اس قدر زیادہ رکھی ہوئی ہوتی ہے کہ کتاب قاری کی پہنچ سے ہی دور ہوچکی ہے۔ اگر آپ خدمت کےلیے لکھ رہے ہیں تو کتاب پر معقول مارجن رکھیں۔۔۔۔اڑھائی سو کی قیمت میں تیار ہونے والی کتاب کی قیمت اڑھائی ہزار لکھ کر آپ خدمت نہیں کاروبار کررہے ہیں۔ تھوڑا نہیں پورا سوچیے !
اور سب سے اہم بات کہ یہ میری ذاتی رائے ہے ہر کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں اختلاف کیا جاسکتا ہے مختلف لوگوں کی آراء مختلف ہوسکتی ہیں۔کوئی لفظ ناگوار گزرے تو شمع کیجئے گا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو! آمین

Shares: