ناکام پالیسیاں، ناکام ادارے اور ضائع ہوتا قیمتی پانی
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور منصوبہ ساز نااہل ہیں، تو شاید ہی کسی کی اس پر دوسری رائے ہو۔ جی ہاں، آپ نے درست سمجھا، پچھلی کئی دہائیوں سے ہم تجربات کرتے آ رہے ہیں، عوام کو اور پاکستان کو لوٹنے کے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی ایک مقروض ملک ہیں اور آئی ایم ایف کی پالیسی سازوں کے زیرِ اثر۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان پانی کی قلت کا نہیں بلکہ نیتوں کی کمی کا شکار ہے۔ اگر آج بھی ریاست، ادارے اور عوام مل کر سنجیدہ اقدامات کریں تو بارش کا ہر قطرہ خزانے سے کم نہیں۔ بصورتِ دیگر، یہ قیمتی پانی ہر سال ضائع ہوتا رہے گا، زمین بنجر ہوتی جائے گی، اور ہم صرف رپورٹس میں کامیابی کے خواب دیکھتے رہیں گے۔

ہم قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں پانی زراعت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر سال مون سون کے موسم میں اربوں لیٹر بارش کا پانی زمین پر گرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ بیش قیمت قدرتی نعمت ہمارے ناکام پالیسی سازوں اور غیر سنجیدہ اداروں کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے۔

یہی پانی نہ صرف شہروں کی سڑکوں اور گلیوں کو دریا بنا دیتا ہے — جیسا کہ حالیہ بارشوں میں ہم نے دیکھا — بلکہ زرعی زمینوں سے بھی بہہ کر ندی نالوں میں چلا جاتا ہے، بنا کسی ریچارج کے، بنا کسی ذخیرہ اندوزی کے۔

اب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سسٹم کیا ہے۔
ریچارج کا مطلب ہوتا ہے زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو قدرتی یا مصنوعی طریقے سے دوبارہ بھرنا۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بارش کے پانی کو محفوظ کر کے نہ صرف زمین کو ریچارج کیا جاتا ہے بلکہ شہری علاقوں میں بھی اسے قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے۔

پاکستان میں اگر جدید طریقہ کار اختیار کر لیا جائے تو نہ صرف زیرِ زمین پانی کی سطح میں بہتری لائی جا سکتی ہے بلکہ پانی کی قلت جیسے سنگین مسئلے سے بھی نمٹا جا سکتا ہے۔

ہمارے ہاں سیاسی اکھاڑوں میں ہماری ترجیحات انتقامی سیاست ہے۔ کیا یہی سوچ ہمارے بانی پاکستان کی تھی؟ یقیناً نہیں۔

اصل مسئلہ پانی کی کمی نہیں بلکہ ترجیحات کی کمی ہے۔ ہمارے پالیسی ساز حضرات اور بیوروکریسی کی دلچسپی صرف کاغذی منصوبوں میں ہوتی ہے، جہاں فنڈز کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر کوئی بہتری دکھائی نہیں دیتی۔

شہروں میں ڈرینج سسٹم ناکارہ ہے، دیہات میں پانی کے نکاس کا کوئی بندوبست نہیں ، جس کی مثالیں حالیہ بارشوں میں کئی دیہات کے زیرِ آب آنے سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ ناقص کارکردگی کی وجہ سے کوئی بھی ادارہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرتا دکھائی نہیں دیتا۔

آئیں اب بات کرتے ہیں ہم ناکام کیوں ہیں اور اداروں کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں:
×واٹر مینجمنٹ اتھارٹی ہو یا محکمہ آبپاشی ، سب کی کارکردگی صرف فائلوں تک محدود ہے۔
×بلدیاتی ادارے نکاسیٔ آب پر توجہ دیتے ہیں، مگر پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی مؤثر نظام نہیں۔
×ماحولیاتی ادارے صرف رپورٹس تیار کرتے ہیں، عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
×سیلاب کنٹرول ڈپارٹمنٹ صرف ہنگامی حالات میں متحرک ہوتے ہیں، مستقل منصوبہ بندی ناپید ہے۔

اگر یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہو تو ریچارج ویل (Recharge Wells) کا قیام شہروں اور زرعی علاقوں میں مخصوص مقامات پر کنویں نما گڑھے کھود کر بارش کے پانی کو زیرِ زمین پہنچایا جا سکتا ہے۔

ریگولر واٹر ہارویسٹنگ اسکیمز کو ہر ضلع کی سطح پر شروع کیا جا سکتا ہے تاکہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے۔کاشتکاروں کو جدید زرعی تکنیکوں کے ذریعے پانی کی بچت اور قدرتی ذرائع سے فائدہ اٹھانے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔

قانون سازی کے ذریعے نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور تعمیراتی منصوبوں میں واٹر ریچارج سسٹم کو لازمی قرار دیا جا سکتا ہے۔

بہرحال، اُمید کا دامن کبھی چھوڑنا نہیں چاہیے… مگر، کب تک؟

Shares: