حکومت نے نیب قوانین میں ترامیم کے معاملہ پراپوزیشن سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حکومت نیب قوانین میں تجویزکردہ ترامیم کا مسودہ اپوزیشن کے سامنے رکھے گی ،نیب قوانین میں ترامیم پراپوزیشن کمیٹی سے بات چیت کرکےاعتماد میں لیا جائے گا .نیب قوانین میں ترامیم پرحکومتی اوراپوزیشن کے مابین آخری بیٹھک کوکئی ماہ گزرچکے ہیں.

وزارت قانون کے ذرائع کے مطابق حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کربذریعہ پارلیمنٹ ترامیم کرناچاہتی ہے،اپوزیشن کے ساتھ نہ دینے پرحکومت نیب قوانین میں ترامیم بذریعہ آرڈیننس کریگی،نیب قوانین میں ترامیم پر حکومت اور اپوزیشن ملاقات اگلے ہفتہ متوقع ہے،

نیب قوانین میں ترامیم پرحکومت اوراپوزیشن نمائندوں کےدرمیان چارملاقاتیں ہوچکی ہیں ،ترامیم کے حوالے سے کمیٹی میں فروغ نسیم، ملیکا بخاری،علی محمد خان حکومتی ممبران ہیں ،اپوزیشن کی جانب سے ایاز صادق،نویدقمر،زاہد حامد او ر دیگر ارکان شامل ہیں.

 

قومی احتساب آرڈیننس ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں تجویز کیا گیا کہ نیب صرف میگا کرپشن مقدمات کی تحقیقات کرے۔ ملزم کو نیب کی تحویل میں نہ دیا جائے۔ پلی بارگین کرنے والے کو جیل کی سزا نہیں ہونی چاہیے اور اسے الیکشن لڑنے کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔ سینیٹ نے بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ بل میں مزید تجویز کیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کو گرفتاری اور احتساب عدالت کو ضمانت کا اختیار نہیں، ملزم کو نیب کی تحویل میں بھی نہ دیا جائے۔

بلی بارگین کرنے والے کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہئے، نیب ترمیمی بل سینیٹ میں پیش

واضح رہے کہ نیب کے نئے ترمیم شدہ مسودہ کے مطابق ٹرائل کورٹ یا احتساب عدالت کو نیب کیسز میںضمانت قبل از گرفتاری اور ضمانت بعد از گرفتاری کے اختیارات ہونگے ،پلی بار گین کی منظوری کا اختیار بھی وزیراعظم کی قائم کمیٹی کے پاس ہو گا جبکہ پلی بار گین کے قوانین کو بھی تبدیل کرنے کی تجویز ہے۔دریں اثنا رقوم کی رضاکارانہ واپسی یا پلی بار گین کے بارے میں بھی کچھ رہنما اصول بنانا پڑیں گے کہ کن درخواستوں کو منظور کیا جائے ۔رہنما اصولوں میںملزم کی آفر،شواہد کی پختگی ،اپیلوں میں لگا وقت ،متوقع وصولی اور ملزمان کو ملازمتو ں سے ہٹانے جیسے عوامل شا مل ہو ں گے ۔پلی بار گین کے بعد بھی ملزم کو عوامی عہدہ یا ملازمت سے دس سال یا کسی بھی دوسرے عرصہ کے لیے نا اہل قرار دیا جا سکے گا۔

ترمیم شدہ مسودہ میں لکھا گیا ہے کہ نیب کا دا ئرہ کار کسی بھی ایسے شخص تک نہیں بڑھایا جائے گا جو کہ بلواسطہ یا بلا واسطہ کسی عوامی عہدے سے تعلق نہ رکھتا ہو ، نیب کیسز میں حد جرم پچاس کروڑ متعارف کروائی جائے گی۔

نئے ترمیم شدہ مسود ہ کے مطابق غیر منقولہ جا ئیداد کاضلعی کلکٹر یا ایف بی آر کے ریٹس سے حساب لگایا جائے گا، نیب کو ایسے کسی معاملے میں نوٹس لینے سے بھی روک دیا گیا ہے جس میں ضابطے کی خامیاں یا سرکاری ملازمین شا مل ہو ں اور جو کہ شفافیت کے اعتبار سے کسی حکومتی پراجیکٹ یا سکیم کو متاثر نہ کرتا ہو۔ نیب صرف اس صورت میں نوٹس لینے کا اہل ہو گا جب ضابطے کی خامیاں یا ایسے شواہد سا منے نہ آجائیں کہ کسی سرکاری ملازم نے اس کے فیصلے سے فائدہ حاصل کیا ہو۔

مسودے میں قرار دیا گیا ہے کہ اختیارات کے غلط استعمال بارے نیب اس وقت حرکت میں آئے گا جب اس میں فوجداری ارادہ یا سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات میں ناقابل جواز اضافہ شامل ہو۔

نئے ترمیم شدہ مسودہ کے مطابق اگر تین ماہ تک تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کروا سکے گا، نیب کسی بھی کیس کو تحقیقات کے لیے دوربارہ نہیں کھول سکے گی جسے تحقیق کے بعد بند کیا گیا ہو ۔اسی طرح سرکاری ملازم کا جسمانی ریمانڈ بھی اب صرف 45دن کا ہو گا۔

نئے مسودے کے مطابق ٹیکس،سٹاک ایکسچینج ،سٹاک مارکیٹ،آئی پی اوز، بلڈنگ کنٹرول پر نیب کے دا ئرہ کار کو ختم کیا جائے گا ۔

Shares: