بھارت میں نئے امریکی سفیر کے طور پر سرجیو گور کی تقرری کے بعد بھارتی حکومت کی بے چینی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان کے روایتی سفارتی تجربے یا جنوبی ایشیائی امور میں مخصوص مہارت کی کمی نے بھارت کے حکومتی حلقوں میں تشویش کو جنم دیا ہے۔ بھارتی حکام نے بھی گور کی نامزدگی پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے جب ان کی تقرری کے بارے میں صدر ٹرمپ کے اعلان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے تفصیلی تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ انہوں نے ان کی تقرری کے بارے میں پڑھا ہے۔ بھارت کے سیاسی اور سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ گور کا کیریئر ایک ڈپلومیٹ کی بجائے سیاسی شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اس وجہ سے بھارت میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا بھارت گور کو بطور سفیر "قبول” کرے گا یا نہیں۔
عام تاثر تو یہی ہے کہ جب ان کی تقرری کی امریکی سینیٹ سے تصدیق ہو جاتی ہے اور وہ بھارتی صدر کو اپنی اسناد پیش کر دیتے ہیں تو بھارت دیگر ممالک کی طرح بین الاقوامی سفارتی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے انہیں باضابطہ طور پر امریکی سفیر کے طور پر قبول کر لے گا۔ سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے سفیر کو قبول کرنے سے انکار آسان نہیں ہے۔ ایسا عام طور پر صرف شدید سفارتی تنازعات کی صورت میں ہوتا ہے یا پھر تعینات سفیر کو شخصی طور پر ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہو۔ فی الحال امریکہ اور بھارت کے تعلقات اتنے کشیدہ نہیں ہوئے تاہم آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ گ
ور دراصل ٹرمپ کے 38 سالہ قریبی ساتھی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ صدر کے ساتھ ان کی وفاداری سے بھارت بھی آگاہ ہے۔ سابق سکریٹری خارجہ کنول سبل کا کہنا ہے کہ بھارت میں ان کی تقرری امریکی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے لیے خصوصی ایلچی کے طور پر گور کے اضافی کردار نے نئی دہلی میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ کنول سبل نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ان کا دوہرا مینڈیٹ امریکہ اور بھارت کی دو طرفہ توجہ کو کمزور کر سکتا ہے اور ممکنہ طور پر بھارت کو پاکستان اور افغانستان سے متعلق علاقائی مسائل میں الجھا سکتا ہے اس کی وجہ سے سرد جنگ کے دور کی پالیسیوں کی واپسی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے جنہوں نے بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے سے دور کر رکھا ہے۔