مزید دیکھیں

مقبول

وزیراعظم کا ازبکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف سے ازبکستان کے سفیر...

کراچی: گلشن معمار میں چھت گرنے سے جاں بحق بچیوں سمیت 6 خواتین کی نماز جنازہ ادا

کراچی،باغی ٹی وی (نمائندہ خصوصی) گلشن معمار میں چھت...

سیالکوٹ پولیس کی ماہ فروری میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مؤثر کارروائیاں

سیالکوٹ،باغی ٹی وی (بیوروچیف شاہدریاض) پولیس نے ماہ فروری...

شادی کا جھانسہ ، پاکستانی لڑکیوں کی چین اسمگلنگ، 3 ملزمان گرفتار

اسلام آباد(باغی ٹی وی )اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایف...

ایپکس کمیٹی میں ایک نام عزم استحکام آیا لیکن آپریشن کا ذکر نہیں تھا،وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے اڈیالہ جیل میں سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے

ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ایپکس کمیٹی میں ایک نام عزم استحکام آیا لیکن آپریشن کا ذکر نہیں تھا، ابھی تک آپریشن عزم استحکام کی کلیئرٹی نہیں۔نا ہی آپریشن عزم استحکام کی کوئی وضاحت دی گئی ہے کہ کس ایریا میں ہوگا ، کہاں ہوگا کب ہوگا اور نہ ہی میری آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی سے کوئی ملاقات ہوئی ہے ، جب اس آپریشن پر پر بریفنگ دی جائے گی تب ہی اس پر کوئی بات ہو سکتی ہے، آئی ایس پی آر کا جب پلان آجائے گا،تب ظاہری بات ہے بات چیت ہوگی۔ اس کے علاوہ تو یہ کام نہی ہوسکتا۔ ایپکس کمیٹی میں ایک پالیسی بنائی گئی میری عمران خان سے پالیسی پر بات ہوئی، پالیسی تھی کہ امن و امان قائم ہو اور دہشت گردی ختم ہو ، پاکستان میں ہم امن بالکل چاہتے ہیں، 9 مئی کیسے ہوا، کس نے کیا پتہ لگنا چاہیے، میری آرمی چیف سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، دہشت گردی کو روکنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مل کر پالیسی بنا سکتے ہیں، اس پالیسی بنانے میں ہم مدد کر سکتے ہیں،

علی امین گنڈا پور کا مزید کہنا تھا کہ مراد راس کی 1700 کالیں پکڑی گئی ہیں یہ انہوں نے کہا اس نے پریس کانفرنس کی اسے چھوڑ دیا گیا ہماری دو خواتین ایک ہی گاڑی میں موجود تھیں ایک نے پریس کانفرنس نہیں کی تو اسے پورے پاکستان میں گھمایا جا رہا ہے ایسے نہیں چلے گا فارم 45 کھولیں اس کے بعد بات چیت ہو گی۔

علی امین گنڈا پور کی عمران خان سے ملاقات میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اہم ہدایات دیں، پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی علی امین گنڈا پور سے کے پی ہاوس میں آج ملاقات کریں گے، علی امین گنڈا پور عمران خان پیغام پارٹی کو پہنچائیں گے، آپریشن عزم استحکام پر گفتگو ہوگی

واضح رہے کہ دو روز قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی تھی،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور بھی اس اجلاس میں شریک تھے تا ہم بعد میں تحریک انصاف نے اس آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر دی

آپریشن عزم استحکام،کامیابی کیلئے اتحاد ضروری،تجزیہ: شہزاد قریشی

نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سمیت تمام سٹیک ہولڈرز نے شرکت کی، اجلاس میں دہشتگردی کی عفریت سے نمٹنے کیلئے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا تاہم اس فیصلے کے بعد مختلف حلقوں بالخصوص مخصوص سیاسی جماعت کی جانب سے مختلف مفروضات سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں جو عوام میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس حوالے سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے مطالعے سے سب کچھ صاف اور واضح ہو،

*آپریشن عزم استحکام کا دائرہ کار*
آپریشن “عزم استحکام” کا دائرہ پورے ملک تک ہو گا نا کہ کسی ایک صوبے یا مخصوص علاقے تک۔ حتٰی کہ دہشت گردوں کے تعاقب میں سرحد پار آماجگاہوں کو نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جائیگا۔ کل کے اجلاس میں تمام وزراء اعلی نے یکسو ہو کے اس فیصلے کی توثیق بھی کی۔ اس سلسلے میں تمام سفارتی کوششیں بھی بروئے کار لائی جائینگی۔

*سیکورٹی فورسز کی استعداد کار میں اضافہ*
دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے زمینی آپریشن کے ساتھ ساتھ سیکورٹی فورسز کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائیگا جس میں جدید آلات، بہتر انٹیلیجینس، موثر ڈیٹا کی فراہمی، فورینسک کی بہترین سہولیات، بائیو میٹرکس کا موثر استعمال اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کی پڑتال جیسے اقدامات شامل ہیں۔ بارڈر مینجمنٹ کے نظام کو مزید فعال کیا جائیگا تاکہ کسی بھی غیر قانونی کراسنگ کا تدارک کیا جا سکے۔

*عزم استحکام کیلئے قومی جذبہ اور اتحاد و یگانگت*
اجلاس میں تمام سیاسی، عسکری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جہاں سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے نبرد آزما ہیں وہیں دہشت گردی کی اس جنگ میں کامیابی کیلئے پوری قوم یکجا ہے اور یہ جنگ جیتنے کیلئے قومی اتحاد اور یگانگت بنیادی عوامل ہیں۔ یہ جنگ کسی مخصوص سیاسی جماعت، مذہبی یا لسانی گروہ کی نہیں بلکہ پاکستان کی جنگ ہے اور تمام حاضرین نے اس کی توثیق کی۔ یہ پاکستان کی مستقبل کی نسلوں کی جنگ ہے۔جو بھی تاریخ کے اس اہم موڑ پہ اس جنگ کے خلاف منفی سیاست کرے گا وہ تنہا رہ جائے گا اور تاریخ اُسے معاف نہیں کرے گی-

*آئینی اور قانونی معاونت*
شرکاء نے متفقہ طور پہ اس آپریشن کی کامیابی کیلئے ایک موثر اور بِلا خوف قانونی سپورٹ کی ضرورت پہ زور دیا۔ دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے مؤثر عدالتی نظام کی کلیدی حیثیت کی اہمیت کا اعادہ کیا گیا اور ماضی میں دہشت گردوں سے روا رکھی جانے والی نرمی کو کامیابی کے حصول میں ایک رکاوٹ قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں موجود عدالتی سقم دور کرنے کی ضرورت پہ زور دیا گیا۔

مخصوص سیاسی جماعت اور اسکے سوشیل میڈیا کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات
مخصوص سیاسی جماعت کے گوہر خان اور اسد قیصر نے آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے بیانات دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی آپریشن کے آغاز سے قبل پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ہم کسی طور بھی کسی آپریشن کی حمایت نہیں کر سکتے ان بیانات کے تناظر میں مندرجہ ذیل عوامل کا احاطہ کرنا بہت ضروری ہے

ایک جانب وزیر اعلیٰ پختونخواہ کا نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی میں بھرپور شرکت کرنا، آپریشن عزم استحکام اور دیگر اہم فیصلوں پر اپنی ہر طرح کی مدد اور تعاون کا یقین دلانا اور دوسری جانب گوہر خان اور اسد قیصر آپریشن مخالف بیان ، مخصوص سیاسی جماعت کے اندر تفریق کو واضح کرتا ہے-اگرمخصوص سیاسی جماعت کے رہنما سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے تو پھر اسی جماعت کا وزیراعلی عزم استحکام کی بھرپور تائید کیسے کر رہا ہے۔۔۔؟
مخصوص سیاسی جماعت رہنماوں کیجانب سے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس جماعت کو ملک کے قومی سلامتی کے حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔جہاں تک مخصوص سیاسی جماعت کے رہنمائوں کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کی کی پارلیمان سے منظوری کی بات ہے اگر اس فیصلے کو منظوری کیلئے پارلیمان میں لایا بھی جاتا ہے تو تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑی نظر آئیں گی-مخصوص سیاسی جماعت کے دور حکومت بھی بارہا ایوان میں دہشت گردی کے خلاف قراردادیں پیش کی جاتی رہی ہیں جو بھاری اکثریت سے منظور بھی ہوتی رہی ہیں ،مخصوص سیاسی جماعت پارلیمان کا جواز بنا کر عزم استحکام کو متنازعہ بنانا, اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ جماعت دہشت گردی کے ساتھ منسلک ہوتی جا رہی ہے اور مخصوص سیاسی جماعت کی جانب سے قومی سلامتی سے جڑے مفادات بالائے طاق رکھتے ہوئے اس پر سیاست کرنا انتہائی تشویشناک ہے

دوسری جانب وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ عزم استحکام آپریشن کیسے کیا جائے گا؟ اس پر بحث کریں گے، ایوان میں قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس بلایا جائے گا،وزیراعظم بھی اجلاس میں شریک ہوں گے،قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھاکہ عزم استحکام آپریشن سے متعلق وزیردفاع بات کرنا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن نے بات نہیں کرنے دی، ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے، کچھ ایشوز بے ضرر ہوتے ہیں، اس سے آپ کی اور ہماری سیاست کو نقصان نہیں، عزم استحکام پر وزیر دفاع بات کررہے تھے، لیکن آپ نے ایک لفظ نہیں سنا، اپوزیشن مشاورت نہ کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آپ کے وزیراعلیٰ نے کوئی بات نہیں کی، وزیردفاع کی تقریر کا ایک لفظ اپوزیشن نے نہیں سنا، کیسے مشاورت کریں؟ آپ کے وزیراعظم کی طرح ناراض ہوکر ہمارا وزیراعظم باہر نہیں بیٹھے گا، بلکہ پوری کابینہ کے ساتھ یہاں موجود ہوگا۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف نے پاکستان میں کسی بھی قسم کے آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کوئی ایپکس کمیٹی پارلیمان سے بالا تر نہیں ہے، بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کوئی بھی آپریشن ہو اس کیلئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، کوئی بھی کمیٹی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو آئین کے مطابق پارلیمان سپریم ہے، کوئی بھی آپریشن ہو، اس کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے،اسد قیصر کا کہنا تھا ہم کسی آپریشن کی حمایت نہیں کرتے، کوئی فیصلہ یا معاہدہ ہوا ہے تو اسے پارلیمنٹ میں لایا جائے۔

ممتاز حیدر
ممتاز حیدرhttp://www.baaghitv.com
ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں Follow @MumtaazAwan