ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور عمران خان کے الفاظ!!! تحریر: نعمان علی ہاشم

0
65

بارگاہِ رسالت مآب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنی مقدس و مکرم ہے اس کا اندازہ شاید ہی ایک دنیادار کو کبھی ہو سکے،
اس دنیا کا سب سے زیادہ مہذب، باشعور، باادب اور بااخلاق شخص بھی شاید سید عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کا حق ادا نہ کر سکے.
میر تقی میر کا ایک مصرعہ ہے کہ
"لے سانس بھی آہستہ کے نازک ہے بہت کام”
سیاسی وابستگی اور نظریے سے قطع نظر اس بات کا حد درجہ خیال رکھیں کہ آپ کس کا ذکر کر رہے ہیں، اور جب آپ عالم کے سب سے زیادہ حسین، اکمل و کامل انسان کا تذکرہ کر رہے ہوں، جو نہ صرف سب سے عظیم انسان ہوں بلکہ صاحب شریعت ہوں. اللہ کے آخری نبی ہی نہیں بلکہ سیدالانبیاء ہوں. جن کے متعلق اللہ نے ادب کا حکم دیا ہو تو پھر اس وقت تک کچھ نہ کہیں جب دل، دماغ، زبان، جسم اور روح ایک پیج پر نہ ہوں.
جب آپ ہر طرح کی احتیاط کو ملحوظ رکھیں گے تو غلطی کا امکان بہت کم ہے. میں سمجھتا ہوں اس معاملے میں بداحتیاطی بھی جرم ہے. اور ایسے عادی مجرم کو اس کی سزا ملنی چاہیے. اب اس کی سزا امت کے مجتہدین ہی طے کر سکتے ہیں. ہم تو عام سے لوگ ہیں.
مگر جب آپکو علم ہو کہ یہ بد احتیاطی کرنے والے کی نیت توہین و گستاخی کی نہیں تو پھر کافر و گستاخ کے فتوے لگانا بھی مناسب نہیں. بلکہ علماء کو چاہیے کہ ایسے بندے کو پیار سے سمجھائیں کہ یہ معاملہ کتنا حساس ہے. اگر بارہا سمجھانے پر بھی وہ شخص نہیں سمجھ پاتا تو اس کے لیے سزا ضرور ہونی چاہیے.
کل سے سوشل میڈیا پر وزیر اعظم عمران خان کے منہ سے رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق انتہائی نازیبا جملہ نکلا. وزیر اعظم صاحب سیدالانبیاء سید البشر صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد کا تذکرہ کر رہے تھے. اور اس راہ میں آنے والی پریشانیوں کو معاذ اللہ ذلالت کہہ دیا. جو کہ سراسر بے ادبی ہے. اس پر خان صاحب کو اللہ سے معافی بھی مانگنی چاہیے. اور آئندہ کے لیے احتیاط بھی کرنی چاہیے. اور وسائل ہوں تو اس اچھا سا عالم دین بھی رکھ لیں جو انہیں سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب سکھائے.
البتہ اس ایک کلپ کی بنیاد پر گستاخ و کافر کہنا قطعاً درست نہیں. لہٰذا تنقید کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے اور شدت کی فضاء قائم کرنے کے بجائے اصلاح کے راستے کو اپنائیں. اور ایسے کلپ کو ایسے شئیر کر کے اپنا مذاق نہ بنوائیں. آپ کی شئیرنگ پر ملحدین قہقہے لگاتے ہیں. اور سوچیں کے مذمت کے نام پر ہم جو کر رہے ہیں وہ بھی کہیں اسی زمرے میں تو نہیں آتا.

Leave a reply