ایڈیشنل کمشنر ان لینڈ ریوینیو اسلام آبا اور نامور شاعر رحمان فارس

0
40

خاک اڑتی ہے رات بھر مجھ میں
کون پھرتا ہے در بدر مجھ میں

رحمان فارس

رحمان فارس :27 فروری 1976ء کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پیدا ہوئے اور روزگار کے اعتبار سے سول سروس آف پاکستان سے مُنسلک ہیں۔ آج کل ایڈیشنل کمشنر ان لینڈ ریوینیو اسلام آباد تعینات ہیں۔ شاعری کا اولین مجموعہ ”عشق بخیر“ کے نام سے اشاعت پذیر ھے۔ مُشاعروں کے حوالے سے دُنیا بھر میں مدعو کیے جاتے ہیں۔ ابھی تک امریکہ، یورپ کے متعدد ممالک، مشرقِ وُسطٰی کے بیشتر ممالک، ہندوستان، بنگلہ دیش، چین، تُرکی اور آسٹریلیا کے مشاعروں میں اپنا کلام پیش کرکے سامعین و حاضرین کی کثیر تعداد سے دادِ سُخن وصول کرچکے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ ادبی دورے کا سفرنامہ زیرِ طبع ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے ادبی پروگرامز کے اینکرپرسن ہیں۔ مؤقر انگریزی جرائد میں متعدد کالمز لکھ چُکے ہیں۔

غزل
۔۔۔۔۔۔
خاک اڑتی ہے رات بھر مجھ میں
کون پھرتا ہے در بدر مجھ میں
مجھ کو خود میں جگہ نہیں ملتی
تو ہے موجود اس قدر مجھ میں
موسم گریہ ایک گزارش ہے
غم کے پکنے تلک ٹھہر مجھ میں
بے گھری اب مرا مقدر ہے
عشق نے کر لیا ہے گھر مجھ میں
آپ کا دھیان خون کے مانند
دوڑتا ہے ادھر ادھر مجھ میں
حوصلہ ہو تو بات بن جائے
حوصلہ ہی نہیں مگر مجھ میں

غزل
۔۔۔۔۔۔
میں کار آمد ہوں یا بے کار ہوں میں
مگر اے یار تیرا یار ہوں میں
جو دیکھا ہے کسی کو مت بتانا
علاقے بھر میں عزت دار ہوں میں
خود اپنی ذات کے سرمائے میں بھی
صفر فیصد کا حصے دار ہوں میں
اور اب کیوں بین کرتے آ گئے ہوں
کہا تھا نا بہت بیمار ہوں میں
مری تو ساری دنیا بس تمہی ہو
غلط کیا ہے جو دنیا دار ہوں میں
کہانی میں جو ہوتا ہی نہیں ہے
کہانی کا وہی کردار ہوں میں
یہ طے کرتا ہے دستک دینے والا
کہاں در ہوں کہاں دیوار ہوں میں
کوئی سمجھائے میرے دشمنوں کو
ذرا سی دوستی کی مار ہوں میں
مجھے پتھر سمجھ کر پیش مت آ
ذرا سا رحم کر جاں دار ہوں میں
بس اتنا سوچ کر کیجے کوئی حکم
بڑا منہ زور خدمت گار ہوں میں
کوئی شک ہے تو بے شک آزما لے
ترا ہونے کا دعوے دار ہوں میں
اگر ہر حال میں خوش رہنا فن ہے
تو پھر سب سے بڑا فن کار ہوں میں
زمانہ تو مجھے کہتا ہے فارسؔ
مگر فارسؔ کا پردہ دار ہوں میں
انہیں کھلنا سکھاتا ہوں میں فارسؔ
گلابوں کا سہولت کار ہوں میں

غزل
۔۔۔۔۔۔
سکوت شام میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی دوا اداسی کی
بہت شریر تھا میں اور ہنستا پھرتا تھا
پھر اک فقیر نے دے دی دعا اداسی کی
امور دل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں
یہاں فقط تری چلتی ہے یا اداسی کی
چراغ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی
وہ امتزاج تھا ایسا کہ دنگ تھی ہر آنکھ
جمال یار نے پہنی قبا اداسی کی
اسی امید پہ آنکھیں برستی رہتی ہیں
کہ ایک دن تو سنے گا خدا اداسی کی
شجر نے پوچھا کہ تجھ میں یہ کس کی خوشبو ہے
ہوائے شام الم نے کہا اداسی کی
دل فسردہ کو میں نے تو مار ہی ڈالا
سو میں تو ٹھیک ہوں اب تو سنا اداسی کی
ذرا سا چھو لیں تو گھنٹوں دہکتی رہتی ہے
ہمیں تو مار گئی یہ ادا اداسی کی
بہت دنوں سے میں اس سے نہیں ملا فارسؔ
کہیں سے خیر خبر لے کے آ اداسی کی

Leave a reply