ننکانہ صاحب(باغی ٹی وی،نامہ نگار احسان اللہ ایاز) ننکانہ صاحب میں آزادیٔ صحافت پر ایک نیا حملہ! صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری کے حالیہ دورے کے دوران مقامی صحافیوں کو کوریج سے روکنے کے واقعے نے صحافتی حلقوں میں طوفان برپا کر دیا۔ جرنلسٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان/یوکے کے پاکستان چیپٹر کے صدر سمیع اللہ عثمانی نے اس واقعے پر شدید غم و غصے اور گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ آزادیٔ اظہارِ رائے اور جمہوریت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔”

سمیع اللہ عثمانی کے مطابق ننکانہ صاحب کے مقامی صحافیوں کو ایک سرکاری تقریب میں جان بوجھ کر روکا گیا، جبکہ لاہور سے من پسند رپورٹرز کو خصوصی دعوت دے کر کوریج کا موقع دیا گیا۔ ان کے بقول، “یہ دہرا معیار واضح طور پر انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی نااہلی، اقرباپروری اور صحافتی دشمنی کا مظہر ہے۔ مقامی صحافی اپنی مٹی کی آواز ہیں، انہیں خاموش کرانا عوام کو خاموش کرانے کے مترادف ہے۔”

انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر اطلاعات کی موجودگی میں ایسا واقعہ پیش آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب میں صحافت کو دبانے کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ اس توہینِ صحافت کا فوری نوٹس لیں، واقعے کی شفاف تحقیقات کروائیں اور ملوث افسران یا ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائیں۔

انہوں نے واضح الفاظ میں کہا، “ہم کسی کو صحافت کی آزادی سلب کرنے نہیں دیں گے، نہ طاقتوروں کی ہدایت پر قلم روکا جائے گا، نہ کیمرہ بند ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جرنلسٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان/یوکے صحافیوں کے وقار، آزادی اور حقِ اظہار کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرتی رہے گی۔

سمیع اللہ عثمانی کا کہنا تھا کہ “یہ 1970 کی دہائی نہیں کہ صحافیوں کو دھمکا کر یا روک کر حقائق چھپائے جا سکیں۔ آج کا دور ڈیجیٹل میڈیا کا ہے ،جہاں ہر خبر، ہر تصویر اور ہر ناانصافی لمحوں میں عوام تک پہنچتی ہے۔”

علاقائی صحافیوں نے بھی حکومتِ پنجاب سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ آزادیٔ صحافت پر قدغن لگانے والے عناصر کو بے نقاب کیا جائے تاکہ کسی کو آئندہ میڈیا کی آواز دبانے کی ہمت نہ ہو۔

ننکانہ صاحب کے صحافیوں کا واضح پیغام ہے کہ "ہم کیمروں کے پیچھے ہیں، مگر سچ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں ، ہمیں دبایا نہیں جا سکتا!”

Shares: