ننکانہ صاحب سےباغی ٹی وی کے نامہ نگار احسان اللہ ایاز کی رپورٹ؛وزیراعلیٰ پنجاب کے دورے کی چمک دمک کے پیچھے چھپی بدحالی، صحافیوں کو دور رکھا گیا، عوامی مسائل پر پردہ ڈالنے کی کوشش؟
وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے حالیہ دورۂ ننکانہ صاحب کو بظاہر ایک عوام دوست اور ترقیاتی سرگرمیوں سے بھرپور واقعہ کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس دورے کے پیچھے کئی ایسے حقائق چھپے رہے جنہوں نے نہ صرف مقامی صحافیوں کو مایوس کیا بلکہ بے بس عوام کو بھی بے چینی میں مبتلا کر دیا۔
صحافیوں کو وزیراعلیٰ سے دور رکھا گیا، سوالات کرنے کا موقع نہ دیا گیا اور میڈیا کو سچ تک رسائی سے محروم کر کے محض سرکاری کیمروں کی آنکھ سے چمکتا چہرہ دکھایا گیا۔ ضلعی انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی مکمل ناکامی نے صورتحال کو مزید مشکوک بنا دیا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کے گزرنے والے علاقوں کی گلیاں جنہیں چند گھنٹوں کے لیے چمکا دیا گیا، درحقیقت کئی ہفتوں سے گندے پانی، تعفن اور بلدیاتی بے حسی کا شکار ہیں۔ قائم مقام چیف آفیسر میونسپل کمیٹی راؤ انوار عوامی شکایات کا مرکز بن چکے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
ڈی ایچ کیو ہسپتال جس کا وزیراعلیٰ نے دورہ کیا، اس دن یورپی معیار کا بنا دیا گیا۔ صفائی، اخلاق، دوائیاں، سب کچھ ایک دن کے لیے دستیاب تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب ممکن تھا تو روز کیوں نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ کو دکھانے کے لیے سب کچھ محض ایک سرکاری اسٹیج شو تھا؟
صحافیوں کو تمام دن مختلف مقامات پر دھکے کھانے پڑے، کبھی واربرٹن، کبھی ڈی ایچ کیو، کبھی ڈپٹی کمشنر آفس، لیکن نہ کوئی بریفنگ ملی، نہ کوئی واضح شیڈول۔ ضلعی تعلقات عامہ کا عملہ مکمل طور پر غائب رہا، کوآرڈینیشن نہ ہونے کے باعث صحافیوں کو شدید تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ سب سوالات صرف صحافیوں کے لیے نہیں، عوام کے لیے بھی ہیں۔ اگر گندگی، بدبو، سیوریج اور استحصال کی حقیقت چھپائی جا رہی ہے تو کب تک؟ کیا ننکانہ کی عوام کو حق حاصل نہیں کہ ان کے مسائل براہِ راست اعلیٰ قیادت تک پہنچیں؟ کب مسیحا آئے گا جو ننکانہ کی سسکتی عوام کو سنے گا؟ کیا صحافی صرف تصویریں کھینچنے اور تعریفی خبریں چھاپنے کے لیے ہوتے ہیں یا ان کے سوالات کا بھی کوئی وزن ہے؟
یہ تحریر صرف رپورٹنگ نہیں، ایک احتجاج ہے – عوام کی بے بسی، صحافت کی تذلیل اور سرکاری سچائیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششوں کے خلاف۔ ننکانہ کی عوام سوال کر رہی ہے:
"کب مسیحا آئے گا؟”