ننکانہ:گورنمنٹ ویمن کالج بچیکی میں اقلیتی لیکچرار کو ہراسانی کا سامنا، کارروائی التوا کا شکار

ننکانہ صاحب،باغی ٹی وی (نامہ نگاراحسان اللہ ایاز)گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین بچیکی میں ہراسانی اور جانبداری کا معاملہ، اقلیتی لیکچرر کی درخواست پر کارروائی میں تاخیر
تفصیلات کے مطابق ہراسانی اور جانبداری کے الزامات پرنسپل کو اضافی چارج ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز دینے پر تشویش معاملے کو فوری حل نہ کرنے سے حساس نوعیت کا مسئلہ بننے کا خدشہ ڈائریکٹر کالجز ملک احسن مختار سے شفاف تحقیقات اور فوری اقدام کی اپیلگورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین بچیکی ننکانہ صاحب کی لیکچرر کی جانب سے ڈائریکٹر کالجز لاہور ڈویژن، ملک احسن مختار کو جمع کرائی گئی درخواست پر 20 روز سے زائد گزر چکے ہیں، لیکن تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین بچیکی میں ایک لیکچرر کی جانب سے پرنسپل اور سی ٹی آئی لیکچرر کے خلاف پیشہ ورانہ بدسلوکی اور ہراسانی کی شکایت کے باوجود انتظامیہ کی خاموشی نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ لیکچرر سمرن جیت کور نے ڈائریکٹر کالجز لاہور کو تحریری درخواست میں تفصیل سے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ کالج میں سی ٹی آئی لیکچرر نمرہ اکبر کا رویہ غیر پیشہ ورانہ ہے اور وہ جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
لیکچرر نے الزام عائد کیا کہ نمرہ اکبر کالج میں دیر سے آتی ہیں، غلط حاضری لگاتی ہیں اور اس کے باوجود پرنسپل ڈاکٹر طاہرہ بتول انہیں حاضر تصور کرتی ہیں۔ درخواست کے مطابق جب بھی مستقل اساتذہ کلاسز لینے میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو ان پر سختی کی جاتی ہے، لیکن سی ٹی آئی اسٹاف کے لیے کوئی اصول لاگو نہیں ہوتے۔ لیکچرر کا مزید کہنا تھا کہ نمرہ اکبر نے کئی مرتبہ کلاسز کے دوران مداخلت کی اور طلبہ کے سامنے انہیں ہراساں کیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پرنسپل ڈاکٹر طاہرہ بتول کھلے عام نمرہ اکبر کی حمایت کرتی ہیں اور ان کی شکایات کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ جب لیکچرر سمرن جیت کور نے غیر منصفانہ رویے کی شکایت کی تو انہیں کہا گیا کہ وہ اس معاملے پر خاموش رہیں۔ درخواست کے مطابق نمرہ اکبر کو پرنسپل نے خصوصی اختیارات دے رکھے ہیں، جس کے تحت وہ مستقل اساتذہ پر نظر رکھتی ہیں اور ان کی ویڈیوز بھی بناتی ہیں۔
لیکچرر نے اپنی درخواست میں مزید انکشاف کیا کہ ایک دن نمرہ اکبر نے مستقل اساتذہ کی حاضری رجسٹر زبردستی چھین لیا اور واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں پرنسپل نے بغیر تحقیق کے لیکچرر کے خلاف شکایات درج کرائیں اور دیگر اساتذہ کو ان کے خلاف بیان دینے کے لیے کہا۔ درخواست کے مطابق نمرہ اکبر کو کالج میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہے، اور وہ پرنسپل کی سرپرستی میں مستقل اساتذہ کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
لیکچرر نے اپنی درخواست میں ڈائریکٹر کالجز لاہور سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کروائیں تاکہ تدریسی ماحول کو پیشہ ورانہ اور منصفانہ بنایا جا سکے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر اس معاملے پر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو یہ تعلیمی ادارے کے ماحول کو مزید خراب کر سکتا ہے اور اساتذہ میں بداعتمادی پیدا کر سکتا ہے۔
سماجی و تدریسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے کو نظرانداز کیا گیا تو یہ اقلیتوں کے حقوق اور انتظامی ناانصافی جیسے حساس مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ اساتذہ اور سول سوسائٹی نے ڈائریکٹر کالجز سے فوری اور غیر جانبدارانہ اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ تعلیمی ادارے میں منصفانہ اور پیشہ ورانہ ماحول کو یقینی بنایا جا سکے۔