ننکانہ صاحب (باغی ٹی وی ،نامہ نگاراحسان اللہ ایاز) ضلعی محکمہ تعلیم میں ایک سنگین بے ضابطگی کا انکشاف ہوا ہے جہاں ریگولر انکوائری میں الزامات ثابت ہونے کے باوجود گورنمنٹ پرائمری سکول چک نمبر 14 جی بی کے ہیڈ ٹیچر نذیر احمد کو مبینہ طور پر افسران کی ملی بھگت سے کلین چٹ دے دی گئی۔ اس غیر معمولی فیصلے پر شہریوں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے، اور انصاف کے تقاضے پامال کیے جانے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق مقامی شہری سمیع اللہ عثمانی نے سی ای او ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی احسن فرید کو تحریری درخواست دی جس میں انہوں نے ہیڈ ٹیچر نذیر احمد پر سنگین الزامات عائد کیے۔ درخواست کے مطابق ہیڈ ٹیچر نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اسکول کے لیے دیے گئے این ایس بی (Non-Salary Budget) اور ایف ٹی ایف (Federal Teachers Fund) کے فنڈز میں خردبرد کی اور اسکول کا سارا ریکارڈ بوگس تیار کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے رجسٹرڈ فرموں کی بجائے جعلی بل تیار کر کے فنڈز کا غلط استعمال کیا۔
اس معاملے پر انکوائری آفیسر عبدالسلام طیب نے تحقیقات کیں اور ریگولر انکوائری میں نذیر احمد کے خلاف لگائے گئے الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے ان کی نااہلی کو واضح کیا۔ انکوائری رپورٹ میں صاف الفاظ میں لکھا گیا کہ ہیڈ ٹیچر نے اسکول کے فنڈز میں خردبرد کی اور ریکارڈ کو بوگس تیار کیا، جس سے محکمہ تعلیم اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا۔
انکوائری میں الزامات ثابت ہونے کے باوجود سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ایلیمنٹری میل، منیر احمد، نے مبینہ طور پر ہیڈ ٹیچر نذیر احمد کے ساتھ ملی بھگت کر کے انہیں کلین چٹ دے دی۔ منیر احمد کی جانب سے یہ اقدام شدید تنقید کا شکار ہو رہا ہے کیونکہ یہ انصاف کے بنیادی اصولوں کے بالکل منافی ہے۔ شہری سمیع اللہ عثمانی کے مطابق یہ ملی بھگت نہ صرف محکمہ تعلیم کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے بلکہ اس سے دیگر اسکولوں میں بھی بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔
اس سنگین بے ضابطگی پر شہریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم میں ایسی بدعنوانیوں کی روک تھام کے لیے سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور ذمہ دار افسران کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات محکمے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
سمیع اللہ عثمانی کی درخواست پر سی ای او ایجوکیشن احسن فرید نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ سی ای او نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سے تحریری وضاحت طلب کی ہے اور اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر کسی قسم کی بدعنوانی ثابت ہوئی تو سخت کارروائی کی جائے گی۔
اس وقت کئی قسم کے سوالات جنم دے رہے کہ کیا یہ تحقیقات غیر جانبدار نہیں تھی؟کیا سیاسی دباؤ کی وجہ سے ملوث افراد کو بچایا گیا؟؟کیا سیاسی دباؤ کی وجہ سے ملوث افراد کو بچایا گیا؟کیا قانون میں کوئی ایسی کمزوری ہے جس کی وجہ سے کرپشن کے مقدمات میں سزا نہیں مل پاتی؟
شہریوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس کیس کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور اگر نذیر احمد اور دیگر افسران قصوروار ثابت ہوں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔