ننکانہ صاحب (باغی ٹی وی، نامہ نگار احسان اللہ ایاز)مون سون کی پہلی بارش نے ننکانہ صاحب کو یورپ کے "وینس” کا منظر تو دے دیا، مگر یہ منظر خوبصورتی نہیں، اذیت اور غفلت کی داستان لیے ہوئے ہے۔ شہر کی گلیاں، بازار اور سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہو گئیں، شہری پانی میں گھِر کر رہ گئے، جبکہ میونسپل کمیٹی کے دعوے اور منصوبے بہہ گئے۔ ڈپٹی کمشنر محمد تسلیم اختر راؤ کی تمام کوششیں، نیک نیتی اور وژن محض کاغذی دکھائی دینے لگیں، کیونکہ میدانِ عمل میں افسران کی لاپرواہی اور نااہلی نے سب کچھ خاک کر دیا۔

ذرائع کے مطابق، میونسپل کمیٹی کے قائم مقام چیف آفیسر راؤ انوار اور سروسز آفیسر صدام حسین کے درمیان اختیارات کی جنگ اور ذاتی چپقلش نے پورے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ شہر کی صفائی، نکاسیِ آب اور سیوریج نظام پر ان دونوں افسران کے جھگڑے کی چھاپ صاف نظر آ رہی ہے۔ یہ اندرونی لڑائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام کا سکون برباد ہو چکا ہے۔ دفتر کی جنگ نے شہر کو پانی میں ڈبو دیا ہے۔

مزید براں، سیوریج نظام کی بہتری کے لیے درکار سکرمشین، جیٹرمشین اور دیگر ضروری مشینری گزشتہ کئی برسوں سے ناکارہ پڑی تھی، جنہیں حالیہ دنوں میں ایڈمنسٹریٹر و ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل شہزاد کھوکھر نے مرمت کے لیے بیرون شہر بھجوا تو دیا ہے، مگر نتائج آنے سے پہلے ہی بارش نے سب کچھ بےنقاب کر دیا۔ شہر کی سڑکوں پر گٹر ابلنے لگے، بازاروں میں دکاندار اپنے سامان کو بچاتے رہے، اور شہری کیچڑ، تعفن اور گندے پانی سے بچنے کی تگ و دو کرتے رہے۔

یہی صورتحال اسمبلی اجلاس میں بھی زیرِ بحث آئی، جہاں ایم پی اے مہر کاشف رنگ الٰہی پڈھیار نے حکومت سے سخت مطالبہ کیا کہ ننکانہ صاحب کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سیوریج کی خصوصی گرانٹ دی جائے۔ انہوں نے کہا: "اب ننکانہ کو سڑکیں نہیں، کشتیاں درکار ہیں۔”

شہری حلقوں میں سخت غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر مون سون سے قبل مشینری کو ٹھیک کر لیا جاتا، افسران ذاتی رنجشوں کو بالا رکھ کر کام کرتے، اور پیشگی انتظامات کر لیے جاتے، تو آج پورا شہر پانی میں نہ ڈوبا ہوتا۔ ہر سال مون سون آتا ہے، مگر ہر سال یہی تماشہ ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ فنڈز موجود ہیں، افسران موجود ہیں، مگر کام کرنے کا جذبہ ندارد۔

شہر کی عوام نے اعلیٰ حکام، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور وزیر بلدیات سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ عوامی مسائل کا مستقل اور عملی حل نکالا جا سکے۔ بصورت دیگر، ہر سال ننکانہ "وینس” بنتا رہے گا، اور عوام مشکلات کی دلدل میں دھنسے رہیں گے۔

Shares: