وطن عزیز کی سیاست اس وقت جس فکری ابتری اور بیاناتی انتشار سے گزر رہی ہے اس میں سب سے خطرناک رحجان یہ بنتا جا رہا ہے کہ ہر عدالتی فیصلہ، ہر انتظامی اقدام اور ہر ناگوار نتیجے کو بلاتحقیق اور بلاتاریخ جانے براہ راست پاک فوج سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں اور حامیوں نے اس طرزِ فکر کو باقاعدہ سیاسی حکمت عملی بنا لیا ہے۔ جو نہ صرف غیر ذمہ دارانہ بلکہ قومی اداروں کے وقار کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ حالیہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد جسٹس جہانگیری کے حوالے سے جو شور شرابا برپا کیا گیا وہ اسی روش کی واضح مثال ہے۔ بغیر یہ سمجھے کہ عدالتی فیصلے کس بنیاد پر ہوتے ہیں فورا انگلیاں پاک فوج کی طرف اٹھا دی گئیں۔ حالانکہ اگر ذرا سا بھی تاریخ کا مطالعہ کر لیا جائے تو حقائق بلکل مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔
جسٹس جہانگیری کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں وہ ایک وقت میں پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے رہے، پھر پی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے سیاست میں متحرک رہے، اس کے بعد ضیاء دور کے ایک جنرل کیساتھ تعلقات رہے اور اسی جنرل کی سفارش پر قائم لیٹریسی اینڈ ماس ایجوکیشن کمیشن (lamic) میں وہ بطور اسسٹنٹ خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ سب کچھ ضیاء الحق کے دور سے پہلے اور بعد کی اس سیاسی تاریخ کا حصہ ہے جسے نظر انداز کرنا خود فریبی کے مترادف ہے۔ جب ضیاء الحق کا اقتدار حادثے کا شکار ہوا اور پیپلزپارٹی کا دور آیا تو جمہوری تسلسل کے تحت انہیں گورنر پنجاب جنرل ٹکا خان مرحوم کا پولیٹیکل سیکریٹری ٹو گورنر مقرر کیا گیا۔ پھر بعد میں انہیں سی ڈی اے اسلام آباد میں لینڈ پروکیومنٹ ڈائریکٹوریٹ جیسی پرکشش ذمہ داری ملی جس نے انکی پیشہ وارانہ زندگی کو نئی سمت دی پھر یہ کچھ عرصہ وکالت بھی کرتے رہے۔ اب حالیہ معاملے میں جس جعلی ڈگری کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا اسے بھی محض اس لیے متنازع بنانے کی کوشش کی گئی کہ فیصلہ پی ٹی آئی کے بیانیے کے مطابق نہیں تھا۔ سوال یہ ہے اگر تین ججز ایک قانونی عمل کے تحت کسی ڈگری کو جعلی قرار دیتے ہیں تو اس میں پاک فوج کو گھسیٹنے کی کیا منطق ہے؟
قوم کو سمجھنا ہو گا کہ ہر ناپسندیدہ فیصلہ سازش نہیں ہوتا، ہر عدالتی حکم کسی ادارے کی مداخلت کا نتیجہ نہیں ہوتا، سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر تاریخ سے ناواقفیت اور جذباتی نعروں کے ذریعے قومی اداروں کو متنازع بنانا ایک خطرناک کھیل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ الزام تراشی سے پہلے حقائق جانیں اور یہ تسلیم کریں کہ ادارے اپنی آئینی حدود میں فیصلے کر رہے ہیں۔ ہر معاملے میں پاک فوج کو موردِ الزام ٹھہرانے سے نہ سیاست مضبوط ہوتی ہے اور نہ ہی جمہوریت تھوڑی سی احتیاط، تھوڑا سا مطالعہ اور کچھ سیاسی بلوغت ہی اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ہے








