امریکی تحقیقاتی ادارے ناسا نے خلا میں 3 کروڑ 10 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے ایک بلی کی ویڈیو زمین پر بھیجی ہے-
باغی ٹی وی : ناسا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے 80 گنا ہے 15 سیکنڈ کی یہ وڈیو جدید ترین لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے زمین پر بھیجی گئی اس تجربے سے ثابت ہوگیا کہ مریخ پر انسانوں کو آباد کرنے جیسے پیچیدہ مشن کے لیے مطلوب مواصلاتی رابطہ ممکن ہے۔
https://x.com/NASA/status/1736900843813605759?s=20
ناسا ن ترجما ن نے پیر کو اعلان کیا کہ اس نے زمین سے 19 ملین میل (31 ملین کلومیٹر) دور ایک خلائی جہاز پر ایک بلی کی ہائی ڈیفینیشن (ایچ ڈی) ویڈیو زمین پر بھیجنے کے لیے جدید ترین لیزر مواصلاتی نظام کا استعمال کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹیٹرز (Taters) نامی ٹیبی نسل کی بلی کی 15 سیکنڈ دورانیے کی ویڈیو بیرونی خلا (Deep Space) سے نشر ہونے والی پہلی ویڈیو ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مریخ پر انسانوں کو بھیجنے جیسے پیچیدہ مشنز کے لیے درکار اعلیٰ ڈیٹا ریٹ مواصلات کو منتقل کرنا ممکن ہے۔
"برطانوی خبررساں ادارے ” انڈیپنڈنٹ اردو” کے مطابق مریخ اور مشتری کے درمیان قیمتی دھاتوں کے حامل چند شہاب ہائے ثاقب کے بارے میں تحقیق کرنے والے خلائی جہاز ”سائیکی“ سے بھیجا جانے والا اینکوڈیڈ انفرا ریڈ سگنل سان ڈیاگو کائونٹی میں قائم رس گاہ میں موصول ہوا،لانچ سے پہلے اپ لوڈ کیے گئے ویڈیو کلپ میں اس بلی کو دیکھا جا سکتا ہے، جو ایک صوفے پر لیزر لائٹ کا پیچھا کر رہی ہے اس ویڈیو میں ٹیسٹ گرافکس اوورلے بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جن میں خلائی جہاز سائکی کے مدار میں راستے، لیزر اور اس کے ڈیٹا کے بارے میں تکنیکی معلومات شامل ہیں۔
جنوبی کیلیفورنیا کی جیٹ پروپلژن لیباریٹری کے ڈیمو پروجیکٹ مینیجر بل کلپسٹین کہتے ہیں کہ اس تجربے کا مقصد بہت بڑے فاصلوں تک ایچ ڈی وڈیوز بھیجنے کے امکانات کا جائزہ لینا تھا-
ناسا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ پر انسانوں کو آباد کرنے جیسے پیچیدہ خلائی مشنز کے لیے انتہائی فاصلوں سے رابطہ کرنے کا نظام تیز ترین اور خامیوں سے پاک ہونا چاہیےخلائی جہاز عام طور پر ریڈیو سگنلز استعمال کرتے ہیں جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے رابطے کی رفتار میں 10 تا 100 گنا اضافہ ممکن ہے،اس ہائی ڈیفینیشن ویڈیو کو 267 میگا بٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین پر بھیجنے میں 101 سیکنڈ لگے، جو گھریلو براڈ بینڈ کنکشنز کے مقابلے میں تیز ترین ہے۔
جے پی ایل میں پروجیکٹ کے ریسیور الیکٹرانک لیڈ ریان روگالن نے بتایا کہ درحقیقت پالومار میں ویڈیو موصول ہونے کے بعد اسے انٹرنیٹ پر جے پی ایل کو بھیجا گیا اور یہ کنکشن بیرونی خلا سے آنے والے سگنل کے مقابلے میں سست تھا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آخر بلی کی ویڈیو ہی کیوں بھیجی گئی؟ جے پی ایل نے بتایا کہ اس کا ایک تاریخی تعلق ہے، جب 1920 کی دہائی میں ٹیلی ویژن میں امریکیوں کی دلچسپی بڑھنے لگی تو فیلکس دی کیٹ کے مجسمے کو آزمائشی تصویر کے طور پر نشر کیا گیا تھا۔