نسل در نسل چلنے والا ٹراما آپکے فیملی پیٹرنز میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ جس میں کچھ عادات، پیٹرن اور خصائص آپ میں آپکے والدین سے منتقل ہوتے ہیں۔

جیسا کہ فرض کریں،

آپ کے دادا دادی ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جنہوں نے ساری عمر غربت کو ہی دیکھا تھا ڈومیسٹک وائلنس عام چیز تھی۔

اب وہ بائیس سال کی عمر میں ایک دوسرے کیساتھ ملتے ہیں، شادی ہوتی ہے اور 25 تک بچے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مگر دونوں گرینڈ پیرنٹ ابھی تک اپنے چائلڈ ٹراما کو پراسس ہی نہیں کر پائے ہیں۔

ان کے تین بچے ہوتے ہیں،

اب غربت میں ان تینوں کو پالنا خاصہ جوکھم والا کام ہے اور یہ ان کو مزید سٹریس دے رہا ہے اور ان کے بچپن کے برے تجربات ان کو ڈپریشن اور انزائٹی میں دھکیل رہے ہیں۔

اب چونکہ بچپن برا تھا تو اس کی وجہ سے ماں نہایت سٹریس میں رہنے کی وجہ سے گرم طبیعت رکھتی ہے اس کو چھوٹی چھوٹی بات بری لگتی ہے اور وہ اپنے بچوں کے پاس رہ کر بھی ان سے منقطع رہتی ہے وہ جسمانی طور پر تو وہاں موجود ہوتی ہے مگر ذہنی طور پر نہیں ۔

وہیں پر باپ ہر وقت کام پہ مصروف رہتا ہے اپنے بیوی بچوں کو بہت کم یا پھر صفر ایموشنل سپورٹ دیتا ہے اور کام میں ہی کہیں افئیر چلا لیتا ہے اور چونکہ ٹاکسک ماحول کی سب سے بری عادت راز رکھنا ہوتی ہے سو وہ بخوبی چھپانا جانتا ہے۔

ان حالات میں ماں شوہر کی ہر بات کو جان رہی ہوتی ہے مگر وہ بند آنکھوں کا ڈرامہ رچا کر کچھ بھی نا دیکھنے کی اداکاری کرنا شروع ہو جاتی ہے اور اس سب سے فرار کی خاطر اپنے بچوں کیساتھ ‘کو ڈپینڈنٹ’ تعلق بنا لیتی ہے جس میں ایک شرط ماں پوری کرتی ہے تو بچے دوسری، یہ تعلق خصوصا بڑے بیٹے کیساتھ ہوتا ہے جس کو وہ اپنا ‘پارٹنر’ سمجھنے لگ جاتی ہے۔

اب اس بڑے بچے کو دونوں یہ سکھاتے ہیں کہ گھر کا سربراہ صرف وہی ہے اور کوئی نہیں، اور ماں کی ایموشنز کا خیال صرف اسی نے رکھنا ہے۔

اب بچے چونکہ باپ کا سایہ کبھی دیکھ ہی نہیں پائے ہیں اور نا ہی ان سے کبھی اس موضوع پر بات ہوئی ہے کہ ان کا باپ کیسا ہے تو وہ اس اگنور کرنے کو تسلیم کرکے اپنے احساسات چھپا کر جینا سیکھ جاتے ہیں۔

اسی دوران یہ بچے اپنی ماں کیساتھ ایک مصنوعی تعلق نبھانا شروع ہو جاتے ہیں اور خود سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ جیسے کبھی نہیں بنیں گے اور ویسی حرکت کبھی نہیں کریں گے۔

یہاں اگر انکی فیملی کو اوپر سے دیکھا جائے تو ‘خوش نظر’ آنیوالی فیملی ہے مگر اس میں کچھ بھی خوشی والا نہیں ہوتا ہے۔

جوان ہونے تک یہ بچے سیکھ جاتے ہیں کہ کیسے انہوں نے ایک ماسک کے نیچے اپنے احساسات کو چھپانا ہے اور کیسے بغیر کسی کو بتائے جینا ہے۔ اسی دوران سب سے بڑا بیٹا نشے یا آوارہ گردی کی طرف چلا جاتا ہے درمیانی بیٹی خود سے بڑی عمر کے شخص سے دوستی کرکے شادی کرنے کی طرف چلی جاتی ہے کیونکہ وہ باپ جیسے پیار کی تلاش میں ہوتی ہے جو کہ اسے کبھی نہیں ملا ہوتا۔

اور

سب سے چھوٹی بچی ہر کسی کی بات کو درست مان کر اس کے پیچھے چلنے والی بن جاتی ہے اس کو انزائٹی اور اٹیچمنٹ ایشوز بھی ہوتے ہیں۔

ان میں سے کوئی بھی اپنے مسائل والدین سے ڈسکس نہیں کرتا کیونکہ ایسا ماحول ہی نہیں مل رہا ہوتا، ایسے خاندان کا واحد ماٹو یہی ہوتا ہے کہ اپنے ٹراما سے تم نے خود ہی لڑنا ہے۔

جنریشنل ٹراما کے کچھ بنیادی عناصر یہ ہو سکتے ہیں؛

نشے کی لت یا جوئے کی لت
خاندان میں ایک سے زائد لوگ ذہنی پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں
راز رکھنا اور بات تسلیم نا کرنے کو کامیابی سمجھنا
ایک دوسرے پہ حد سے زیادہ انحصار
باؤنڈریز نا رکھنا
خود شناسی کی کمی
ایموشنلی امیچور ہونا
کسی بھی طرح کے سٹریس کا سامنا نا کر پانا
خود کو کمتر سمجھنا
دوسروں پہ اعتماد نا کرنا
وغیرہ

لیکن خوش قسمتی سے ان سائیکلز کو توڑا بھی جا سکتا ہے سائیکل بریکر وہ شخص ہوتا ہے جو اس لائف سٹائل سے فرار ڈھونڈ کر خود شناسی سے ان ٹراماز پہ قابو پانا سیکھ جاتا ہے۔ اور یہ چیز آپ کو خود ہی سیکھنا ہوتی ہے۔

Shares: