انتخابی امور پر نظر رکھنے والی غیرسرکاری تنظیم فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی جانب سےسندھ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرن آؤٹ کم ہونے کے باوجود انتخابی نتائج میں غیرضروری تاخیر سے سارا عمل متاثر ہوگیا۔
باغی ٹی وی: سندھ مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوسرا مرحلے کے حوالے سے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نے رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ نتائج میں غیر ضروری تاخیر نے پرامن اور منظم انتخابی عمل کو گہنا دیاکراچی اورحیدرآباد ڈویژن میں ووٹ ڈالے جانے کی شرح میں خاصا فرق رہا البتہ انتخابی عمل پرامن اور نسبتاً منظم رہا،تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج میں تاخیر کی بنا پر لگائے جانے والے دھاندلی کے الزامات نے انتخابات کی شفافیت کو متاثر کیا ہے۔
پیپلزپارٹی سےعملی اقدامات کےبعدہی مزیدبات چیت ہوسکتی ہے،حافظ نعیم
فافن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے بائیکاٹ سے کراچی اور شہری حیدرآباد میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہا، عام انتخابات کے سال میں انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کے تنازعات سے اچھا تاثر پیدا نہیں ہوگا، شکوک و شبہات سے پاک انتخابات کے ذریعے ہی ملک میں سیاسی استحکام آسکتا ہے جبکہ متنازع الیکشنز سے جمہوریت مزید کمزور ہوگی، اور شہریوں کا جمہوری عمل پر اعتماد متزلزل رہے گا۔
رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ انتخابی قانون الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت خود کو حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے کے جائز خدشات کو دور ہر ممکن حد تک دور کرنے کی کوشش کرے تاکہ ایسے انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جاسکے جن میں تمام شہری شامل ہوں اور کسی جماعت کے انتخابی بائیکاٹ کی نوبت پیش نہ آئے۔
فافن رپورٹ کے مطابق سیاسی تنازعات اور انتخابات سے متعلق غیر یقینی صورتحال کے باوجود بدین، جامشورو، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، ٹھٹھہ اور ملیر کے اضلاع میں ووٹروں کی ایک نمایاں تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا البتہ کراچی سینٹرل ، کراچی ایسٹ ، کراچی ویسٹ ، کراچی ساؤتھ، کورنگی، حیدرآباد اور کیماڑی کے اضلاع میں ووٹر ٹرن آؤٹ نسبتاً کم رہا۔
تحریک انصاف کے مزید استعفے منظور ہونے کا امکان
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیدرآباد ڈویژن میں ٹرن آؤٹ 40 فیصد سے زائد رہا جبکہ کراچی میں ملیر کے علاوہ 20 فیصد سے بھی کم رہا۔ واضح رہے کہ 2015 کے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں ٹرن آؤٹ بالترتیب 36 اور 58 فیصد تھا۔
فافن کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے پہلے مرحلے کے مقابلے میں حالیہ مرحلے کے دوران ووٹنگ کا عمل زیادہ منظم رہا تاہم پولنگ اسٹیشن کے اندر اور ان کے اطراف میں انتخابی اشتہارات اور تشہیری مہم سے متعلق بے ضابطگیوں کے ساتھ ساتھ بیلٹ پیپر کے اجرا سے متعلق بے قاعدگیاں دوسرے مرحلے میں بھی برقرار رہیں۔ دوسرے مرحلے میں انتخابات کے دن کا ماحول بڑی حد تک پرامن رہا۔
پولنگ کے دوران فافن کے مشاہدہ کاروں نے پولنگ اسٹیشنوں پر تلخ کلامی کے 14 واقعات رپورٹ کیے جبکہ پہلے مرحلے کے دوران تشدد کے 55 واقعات دیکھنے میں آئے تھے جن میں مسلح جھڑپیں بھی شامل تھیں۔
دھاندلی کے الزامات کے باوجود کراچی ڈویژن کے عبوری نتائج دو دن کے اندر موصول ہو گئے تھے لیکن حیدرآباد ڈویژن کے مجموعی نتائج کا ابھی بھی انتظار ہے۔
فافن کےمشاہدہ کاروں کے مطابق پریزائیڈنگ افسران کی جانب سے تیار کردہ پولنگ اسٹیشن کے نتیجے کے فارموں ( فارم 11 ) میں کئی طرح کی خامیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں فافن کو موصول ہونے والے کئی فارموں میں پولنگ سٹیشنوں کے نام، رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ، مردوں اور عورتوں کے ووٹوں کی الگ الگ تعداد ، اور پریزائیڈنگ افسران کے دستخط سمیت اہم معلومات درج نہیں کی گئیں۔
الیکشن کمیشن پنجاب اور کے پی اسمبلی کے عام انتخابات کرانے کے لیے تیار
حالیہ انتخابی عمل کے مشاہدے کی روشنی میں فافن کی سفارش ہے کہ الیکشن کے دن انتخابی مہم چلانے سے متعلق ضابطہ اخلاق کے سخت نفاذ کو یقینی بنایا جائے جبکہ ووٹروں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے پولنگ بوتھوں کے لیے مناسب جگہ رکھی جائے۔
فافن کی یہ رپورٹ 343 پولنگ اسٹیشنوں (کل تعداد کا چار فیصد) سے موصول ہونے والے مشاہدات پر مبنی ہے جن میں 225 مشترکہ، 61 مردانہ اور 57 زنانہ پولنگ اسٹیشن شامل ہیں فافن نے انتخابی عمل کے مشاہدے کے لیے کل 104 تربیت یافتہ شہری مشاہدہ کاروں کو تعینات کیا تھا جن میں 66 مرد اور 38 خواتین شامل تھیں۔
رپورت کے مطابق مشاہدہ کاروں نے الیکشن کے دن 90 پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ کے آغاز ، 953 پولنگ بوتھوں پر انتخابی عملے اور سامان کی دستیابی اور 74 پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی کے عمل کا مشاہدہ کیا نیز 1,121 ووٹروں کی شناخت اور انہیں بیلٹ پیپر کے اجرا کے مراحل کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔