نواب اکبر بگٹی کی پُر اسرار شخصیت

نواب اکبر خان بگٹی کی شخصیت بہت پُراسرار اور دلچسپ تھی.
0
79

نواب اکبر بگٹی کی پُر اسرار شخصیت

قصے اور کہانیاں/آغا نیاز مگسی

بلوچستان قبائلی نوابوں اور سرداروں کی سرزمین ہے . اس سرزمین میں کٸی نامور قباٸلی سرداروں نے جنم لیا ہے . قیامِ پاکستان سے قبل جو نامور بلوچ سردار گزرے ہیں ان میں سردار چاکر خان رند ، سردار گوہرام خان لاشاری ، خان آف قلات نوری نصیر خان ، میر محراب خان ، میر محمود خان و دیگر اکابرین ہیں لیکن ان میں نواب یوسف عزیز مگسی ان سب سے مختلف ثابت ہوئے اس لیے کہ انہوں نے روایتی قباٸلی سوچ اور جنگ و جدل کے برعکس شعور و آگاہی کی تحریک چلاٸی اور علم کی شمع روشن کرنے کی مہم شروع کی تھی اور بلوچستان کے قبائلی سماج میں سیاسی جدوجہد کی ابتدا بھی انہوں نے کی ۔ اس لیے نواب یوسف عزیز مگسی کو اولین بلوچ قاٸد کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے .

قیامِ پاکستان کے بعد جو بلوچ نواب اور سردار سیاسی اور قباٸلی لحاظ سے عزت اور شہرت کی بلندیوں پر فاٸز ہوٸے ان میں میر غوث بخش بزنجو جن کو بابائے بلوچستان بھی کہا جاتا ہے ، میر جعفر خان جمالی جن کو فدائے ملت بھی کہا جاتا ہے ، کے علاوہ نواب اکبر خان بگٹی سردار عطا اللّٰہ مینگل نواب خیر بخش مری نواب نوریز خان زہری، سردار دودا خان زہری ، نواب غوث بخش رئیسانی ، میر ظفراللّٰہ خان جمالی و دیگر اکابرین شامل ہیں. اگر ان شخصیات میں سے شارٹ لسٹ بنائی جائے تو ان میں صرف 4 قبائلی سربراہان کے نام آئیں گے جن میں نواب نوریز خان زہری ، نواب اکبر خان بگٹی ، سردار عطا اللّٰہ مینگل اور سردار دودا خان زہری شامل ہیں . سردار دودا خان زہری کا کوئی سیاسی کردار اور کوئی سماجی خدمت نہیں تھی لیکن ان کا نام خوف اور دہشت کی علامت بنا ہواتھا . بلوچستان میں خان آف قلات میر محمود خان احمد زئی چیف آف جھالاوان سردار دودا خان زہری اور نواب اکبر خان بگٹی 3 ایسے قبائلی سربراہ گزرے ہیں جن کا نام لیتے ہوئے بھی لوگوں کے دلوں پر ہیبت طاری ہو جایا کرتی تھی. اس حوالے سے آج بھی ان کی مثالیں دی جاتی ہیں .

نواب اکبر خان بگٹی کی شخصیت بہت پُراسرار اور دلچسپ تھی. وہ بہت کم گو اور مختصر گفتگو کیا کرتے تھے . اس لیے ان سے کسی کا بے تکلف ہونا بہت مشکل تھا مگر مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ گفتگو میں مجھ سے کافی حد تک بے تکلف تھے اس لیے مجھے ان سے عام نوعیت کے سوالات کے علاوہ ذاتی اور نجی زندگی کے متعلق بھی سوالات کرنے میں آسانی رہتی تھی . نواب بگٹی بہت ضدی، انا پرست اور بہادر انسان تھے ان میں لچک نہیں تھی . کہا جاتا ہے کہ انسان ہو یا دوسرا کچھ جس میں لچک نہیں ہوتی وہ ٹوٹ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نواب صاحب نے بھی زندگی کے کارِزار میں ٹوٹنا پسند کیا لیکن جھکنا کسی صورت قبول نہیں کیا اور باالاآخر وہ 26 اگست 2006 کو ٹوٹ گئے . وہ تمام عمر کشیدہ سر رہے ، جھکے نہیں . وہ بہت بااصول اور عملیت پسند انسان تھے اور اس میں کبھی بھی مصلحت یا سودیبازی کا شکار نہیں ہوتے تھے . وہ دوستی اور دشمنی خوب نبھاتے تھے خواہ کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو . وہ عدل اور انصاف کا قاٸل تھے . ایک بار ان کے فرزند نوابزادہ طلال بگٹی نے ڈیرہ بگٹی میں اپنے شہر کی ایک ہندو لڑکی سے جنسی زیادتی کر ڈالی جس پر وہ اپنے بیٹے کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر لوگ درمیان میں بیچ بچاٶ کرانے آ گٸے . انہوں نے اپنے بیٹے طلال کی اس شرط پر جان بخشی کی کہ وہ ابھی اور اسی وقت ڈیرہ بگٹی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل جاٸے چنانچہ نوابزادہ طلال وہاں سے علاقہ بدر ہو کر چلا گیا اور جب تک نواب صاحب زندہ رہے طلال سے نہ صرف کبھی بھی رابطہ نہیں رکھا بلکہ اسے کبھی واپس آنے نہیں دیا .

نواب اکبر خان بگٹی کی وفات پر نوابزادہ طلال کی واپسی ممکن ہو سکی . 1977 کو جب جنرل ضیاالحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو جب تک ملک میں مارشل لا رہا نواب بگٹی نے قومی زبان اردو میں بات چیت کا بائیکاٹ کیا . اس طرح 8 سال تک انہوں نے اردو میں بات نہیں کی . وہ قانون کا بہت احترام کرتے تھے اور کرپشن کے سخت مخالف تھے بلوچستان میں وہ واحد شخصیت تھے جو پوری دیانتداری کے ساتھ اپنی آمدن کا ٹیکس ادا کیا کرتے تھے . انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال تک خود کو ڈیرہ بگٹی میں محدود اور محصور کر رکھا اور کہیں باہر نہیں گیا اور اس دوران گوشت کا سالن بھی نہیں کھایا .

ایک بار میں نے ان سے دریافت کیا کہ انہوں نے گوشت کا استعمال کیوں ترک کیا حالانکہ وہ بلوچی سجی بڑے شوق سے کھاتے تھے اور دوسرا یہ کہ وہ ڈیرہ بگٹی سے باہر کیوں نہیں جاتے تو انہوں نے بڑا دلچسپ اور حیران کن جواب دیا . انہوں نے کہا کہ میں بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی شخصیت سے متاثر ہوں اس لیے ان کی تقلید کرتے ہوٸے گوشت کا استعمال ترک کیا ہے انہوں نے وضاحت کی کہ بدھ مت مذہب میں صوفی ازم پایا جاتا ہے جس پر عمل کرنے والوں کو شاکاری کہا جاتا ہے وہ لوگ گوشت نہیں کھاتے . ڈیرہ بگٹی سے باہر نہ جانے کے متعلق میرے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے ڈیرہ بگٹی سے باہر جانا اس لیے چھوڑ دیا ہے کہ تمام دنیا کی نظریں ڈیرہ بگٹی پر لگی ہوٸی ہیں چناں چہ میں اپنی زندگی کا بقیہ حصہ ڈیرہ بگٹی میں گزارنا چاہتا ہوں حالانکہ نواب بگٹی سیر و سیاحت ااور مطالعے کے بڑے شوقین تھے . انہوں نے 22 ممالک کا دورہ کیا تھا جن میں امریکہ اور برطانیہ بھی شامل تھے . جبکہ پاکستان میں لاہور ان کا پسندیدہ شہر تھا . وہ اس سے قبل ہر سال سردیاں گزارنے لاہور جایا کرتے تھے . وہ اتنے خوبصورت اور متاثر کن شخصیت کے مالک تھے کہ لوگ ان کو پہلی نظر میں دیکھنے کے بعد باربار دیکھنے کے آرزومند رہتے تھے ان میں مرد خواہ خواتین دونوں شامل تھے .

ڈیرہ بگٹی میں نواب بگٹی کے مہمان خانہ میں ان کی نشست و برخاست اور خلوت کے لیے مخصوص کمرے میں ایک شیر کی تصویر آویزاں تھی میں نے ان سے پوچھا اس کی وجہ کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ لندن میں ایک سکھ سردار میرا دوست ہے اس نے یہ تحفہ دیا ہے اس لیے میں نے سنبھال رکھا ہے جس سے میرے دل میں یہ خیال آیا کہ شاید نواب صاحب نے خود کو شیر سے تشبیہہ دے رکھی ہے اور اس میں کوٸی شک بھی نہیں کہ وہ ایک شیر دل انسان تھے . ان کی پسند بھی بہت دلچسپ تھی . ان کی آٸیڈیل شخصیات 3 تھیں جن میں حکمرانوں میں دنیا کو تباہ کن جنگ میں دھکیلنے والے جرمنی کے سربراہ ہٹلر ، شعرا میں بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور اور مذہبی شخصیات میں بدھ مت کے بانی گوتم بدھ شامل تھے . وہ سخی اور فیاض قسم کے سردار تھے . ڈیرہ بگٹی میں ان کے مہمان خانے میں روزانہ 200 کے لگ بھگ افراد کو ان کی جانب سے مفت کھانا کھلایا جاتا تھا اور وہ کھانا نہایت عمدہ اور لذیذ ہوتا تھا جس میں امیر اور غریب کی کوئی تخصیص نہیں تھی .

ایک دفعہ مجھے صحافی دوستوں نے نواب بگٹی سے ڈیرہ بگٹی میں خصوصی ملاقات اور انٹرویو کیلٸے وقت مانگنے کا کہا میں نے فون پر ان سے وقت مانگا تو انہوں نے کہا کہ آپ لوگ جب چاہیں آ سکتے ہیں . اس سلسلے میں ایک روز ان کی ہدایت پر دریحان بگٹی نے مجھے فون کرکے معلوم کیا کہ نواب صاحب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کتنے دوست کب اور کس راستے سے اور کون سی سواری پر آٸیں گے سو میں نے اپنے صحافی دوستوں عبدالستار ترین دھنی بخش مگسی شیخ عبدالرزاق اور محمد وارث دیناری سے مشورہ کر کے ان کو شیڈول بتا دیا . جب اور جس دن ہم روانہ ہوئے تو راستے میں ایک پولیس تھانہ کے ایس ایچ او نے میرے صحافی دوستوں کو دوپہر کو اپنے ہاں کھانا کھلانے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے ہمیں ڈیرہ بگٹی جانے میں تاخیر ہو گٸی اور راستے میں ٹیلیفونک رابطے کی سہولت بھی میسر نہیں تھی . جب ہم ڈیرہ بگٹی شہر میں داخل ہوئے تو وہاں کے شہری ہمیں بتانے لگے کہ نواب صاحب آپ لوگوں کی تاخیر کے باعث فکر مند ہیں اور باربار پوچھ رہے تھے . جب ہم ان سے ملے تو انہوں نے مسکراتے ہوۓ کہا کہ میں تو بی بی سی میں آپ لوگوں کے ڈیرہ بگٹی جاتے ہوئے اغوا ہونے کی خبر سننے کا منتظر تھا . ان سے اس رات ہماری طویل اور یادگار نشست ہوئی.

نواب بگٹی بلوچستان کے گورنر وزیر اعلیٰ اور متحدہ پاکستان کے ابتدائی دور میں وزیر دفاع کے عہدے پر بھی فائز رہے . وہ اپنے بگٹی قبیلے میں اتنے مقبول اور قابلِ احترام تھے کہ وہ لوگ ایک برگزیدہ ہستی کی طرح نواب بگٹی کے سر اور داڑھی کی قسم کھا کر کسی بات کا یقین کراتے تھے مگر 24 اگست 2006 کو اس کے اپنے ہی قبیلے کے ہزاروں افراد نے ڈیرہ بگٹی میں ایک گرینڈ جرگہ منعقد کر کے نواب اکبر بگٹی کو سرداری کے منصب سے ہٹانے اور بگٹی قبیلے میں سرداری نظام کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ان میں ان کے بھتیجے اور ان کے ہی منتخب کردہ ایم پی اے حاجی جمل خان بگٹی بھی شامل تھے جبکہ میں بھی اس جرگے میں میڈیا کوریج کے لیے موجود تھا . اس دن بگٹی قبیلے میں بڑا جوش و خروش محسوس ہو رہا تھا . اس سے صرف 2 روز بعد ہی 26 اگست 2006 کو ضلع کوہلو کے پہاڑوں کی ایک غار میں نواب صاحب کے جانبحق ہونے کا سانحہ پیش آیا . جہاں سے 3 روز بعد ان کی میت برآمد ہوٸی اور ان کی مسخ شدہ لاش کو ڈیرہ بگٹی میں سپرد خاک کیا گیا . ان کی میت کی تدفین کے موقع پر بھی میں وہاں موجود تھا وہ ایک بڑا عبرتناک منظر تھا. ان کی جنازہ نماز اور تدفین میں صرف ایک درجن کے لگ بھگ مقامی افراد شریک ہو سکے تھے جنہوں نے جنازہ نماز کے بعد ان کے تابوت کو بھی لحد میں اتارا تھا جس کے لیے وہاں آنسوں بہانے اور ان کی قبر پر پھول نچھاور کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

Leave a reply