صوبہ بلوچستان میں سیاسی اکابرین کا میاں محمد نواز شریف پر اظہار اعتماد اور مسلم لیگ (ن) میں شمولیت دراصل نواز شریف کی بطور وزیراعظم ان کا وشوں کا اعتراف ہے جو کہ نواز شریف نے بلوچستان کی محرومیوں کو ختم کرنے بلوچی بھائیوں کے زخم پر مرہم رکھنے اور صوبہ کو گوادر سی پورٹ اور مواصلاتی و ترقیاتی منصوبوں سے لیس کرنے کے اقدامات تھے ۔ نواز شریف نے گذشتہ ادوار میں بطور وزیراعظم جہاں پاکستان بھر میں میگا پراجیکٹس کی بھرمار کردی تھی وہاں بلوچستان منصوبہ کو بھی سی پیک و گوادر پورٹ کے منصوبوں سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے تاریخی اقدامات کیے تھے۔ اس ترقی کا عمل وہیں کا وہیں روک دیا گیا جس کا خمیازہ ملک وقوم کو بھگتنا پڑا۔ آج بلوچستان میں نواز شریف کی جو عزت افزائی ہوئی اور قومی سطح کے اعتماد بھائی چارے کی فضا کو جو فروغ ملا اس پر چند سیاسی طالع آزما ئوں کو اور کچھ دانشوروں تجزیہ کاروں کو تاریخ کے صفحات پلٹ کر ایک نظر ان حقائق پر بھی ڈالنی چاہیئے ۔
جب قومی و جمہوری و مفاہمتی سیاست کے د عویدار جناب آصف علی زرداری نے اپنے خفیہ موکلوں کے بل بوتے پر مسلم لیگ (ن) کی ہی حکومت کو رخصت کیا تھا اور سینٹ میں مسلم لیگ(ن) کی عددی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کروا کر ( ایک زرداری سب پر بھاری ) کے خوشامدانہ نعر ے اور نعروں سے اپنے دامن پرجمہوریت کے قتل کے داغ سجا لئے تھے۔ آج لیول پلنگ فیلڈ کے نام پر اپنے ماضی کے گناہوں سے چشم پوشی کرنے والوں کو وہ وقت بھی یاد رکھنا ہوگا۔ قوم نے نواز شریف کی وزارت عظمٰی سے معزولی کی بھاری قیمت جو ادا کی تھی وہ ترقیاتی عمل سے تنزلی کا سفر ، سی پیک رول بیک ، جی ڈی پی میں کمی ، صحت و تعلیم کے شعبوں میں سہولیات کے فقدان کی صورت میں بھگتا ہے ۔ملکی سیکورٹی اور فوجی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ قومی مفاد سے آشنا ، دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو چاہیئے کہ عوام کو باور کرائیں کہ دھرنا دھندوں عقل کے اندھوں سیاسی نعروں سے نکل کر صوبوں میں برابر ترقی کے خواب کو عملی جامعہ پہنانے میں اپنا کردار ادا کریں .دنیا تیزی سے ترقی کررہی ہے اورہم ذرا سوچئے؟








