نئے پاکستان کی کہانی، تحریر: نوید شیخ

0
36

نئے پاکستان کی کہانی، تحریر: نوید شیخ
جیسا کہ امید تھی کہ منی بجٹ پاس ہوجائے گا ۔ ہوگیا ہے ۔ مگر اس منی بجٹ کا بوجھ اب پی ٹی آئی سمیت اتحادی جماعتیں کیسے اٹھائیں گی یہ دیکھنا ہے۔ ۔ کیونکہ شوکت ترین جو مرضی کہانیاں سنائیں یا بتائیں اس کے بعد اب مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آنا ہے ۔ جس کے بعد قوی امید ہے کہ اگلے جنرل الیکشن میں یہ طوفان اس حکومت اور اس کے اتحادیوں کو بہا کر لے جائے گا ۔ کیونکہ مت بھولیں عوام ووٹ کی طاقت سے تبدیلی لایا کرتے ہیں ۔ جس کا گاہے بگاہے وہ انتظار کررہے ہیں ۔ آپ اس منی بجٹ کو last nail in the coffin بھی کہہ سکتے ہیں ۔

۔ کیونکہ یہ منی بجٹ نہیں عوام پر ایک نئے طرح کا جبری عذاب ہے جو مسلط کیا گیا ہے ۔ مجھے تو پی ٹی آئی کے ترجمانوں پر حیرت ہے جو اس منی بجٹ کو بھی حکومت کی فتح قرار دے رہے ہیں ۔ خوب خوشیاں منا رہے ہیں مبارکبادیں دے رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ آئی ایم ایف کی فتح ہے ۔ کیونکہ اب پاکستان کو معاشی طور پر بذریعہ قانون گروی رکھ دیا گیا ہے ۔ اور اس گناہ میں پی ٹی آئی کی حکومت سمیت تمام اتحادی شامل ہیں ۔ ۔ اچھا جب یہ منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو ہمیشہ کی طرح آج بھی ایوان مچھلی منڈی بن گیا اور عوام سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا ۔۔۔ یہ ہیں ہمارے نمائندے ۔

۔ اپوزیشن کا کام احتجاج ہوتا ہے جو آج تمام اپوزیشن جماعتوں نے خوب کیا ۔ ۔ اپوزیشن نے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے ۔
۔ خوب نعرے بازی بھی کی گئی ۔ ۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دھواں دھار تقریریں بھی ہوئیں ۔ ۔ بلکہ پی ٹی آئی کی عزالہ سیفی کو پیپلزپارٹی کی شگفتہ جمانی نے تھپڑ تک جڑ دیا ۔ ۔ تو ایوان میں وہ ہی کچھ ہوا جس کی امید تھی ۔ بالکل امید سے بھی آگے کام ہاتھا پائی تک جارہا تھا ۔ اس میں اب کوئی شک نہیں کہ منی بجٹ کے معاملے میں حکومت جیت چکی ہے اور اپوزیشن کس شکست ہوئی ہے ۔ مگر یہ پہلی ایسی جیت ہے جو حکومت کے گلے کا پھندہ بن سکتی ہے ۔ اس کا رزلٹ اب آپ کو ہر آنے والے الیکشن میں دیکھائی دے گا ۔

۔ مِنی بجٹ کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ تقریباً 150 اشیاء پر سیلز ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے جن سے 350 ارب روپے سے زیادہ اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔ ۔ امپورٹڈ فوڈ آئٹمز پر ٹیکس چھوٹ ختم ہونے سے 215 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، بیکری آئٹمز، برانڈڈ فوڈ آئٹمز پر بھی جنرل سیلز ٹیکس چھوٹ واپس لینے کی تجویز ہے۔۔ بل میں پاور سیکٹر کیلئے امپورٹڈ مشینری پر دی گئی چھوٹ واپس لینے، ادویات بنانے کیلئے استعمال ہونے والےخام مال پرٹیکس چھوٹ ختم کرنے، بیرون ملک سے منگوائے جانے والے پالتو جانوروں، پرندوں اور انڈوں پرٹیکس چھوٹ واپس لینے، امپورٹڈ گوشت اور پولٹری آئٹمز پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے، موبائل فون کمپنیوں کی سروسز پر ایڈوانس ٹیکس 10 فیصد سے 15 فیصدکرنےکی تجویز ہے۔ موبائل فونز پر انکم ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ
850 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ ڈیوٹی فری شاپس پر پہلی بار 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بیکری، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز پر بریڈ کی تیاری پر 17فیصد جی ایس ٹی کی تجویز ہے۔ ۔ پھر ان کڑی ترین شرائط کی بدولت بجلی اور پٹرول مزید مہنگا ہونے کا امکان ہے۔۔ دراصل اس 360
ارب روپے کے منی بجٹ میں صرف ٹیکس ہی ٹیکس ہیں ۔ عملاً آج سے پاکستان کی معاشی خود مختاری گروی رکھ دی گئی ہے ۔ آج جو بھی قوانین بنے ہیں یہ سب آئی ایم ایف کے ایما پر بننے ہیں ۔ یاد کریں یہ وہ ہی عمران خان ہیں جو کہا کرتے تھے کہ مر جاوں گا بھیک نہیں مانگو گا ۔ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاوں گا۔ ہماری تیاری پوری ہے ۔

۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا ۔۔۔ کاں ۔۔۔ چٹا ہی ہے ۔ ۔ آج پھر انھوں نے وہ ہی بونگی ماری ہے جو وہ پہلے کئی بار مار چکے ہیں کہ منی بجٹ میں عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا جا رہا۔ عوام پر بہت تھوڑا بوجھ پڑے گا۔ یہ سفید جھوٹ ہے ۔ عنقریب جب لوگوں کی چینخیں نکلیں گی تو پھر عمران خان اور ان کے ترجمانوں کے پینترے دیکھائے گا ۔ کبھی کسی کو مافیا کہیں گے تو کبھی اپوزیشن پر سارا ملبہ ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ یعنی جو یہ کرتوت کر رہے ہیں اس کی ذمہ دار بھی اپوزیشن ہے ۔ پر اب ان تین سالوں میں عوام بہت کچھ دیکھ بھی چکے ہیں اور سمجھ بھی چکے ہیں اس لیے اب وہ حکومت کے کسی بھی جھانسے میں آنے کو تیار نہیں ہیں ۔ کیونکہ لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے ۔ اس حکومت کے پاس جھوٹ بولنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ یہ سرٹیفائیڈ جھوٹے ایک بار نہیں کئی بار جھوٹ بول چکے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر بار رنگے ہاتھوں پکڑ بھی گئے ہیں ۔ بلکہ شاید ان تین سالوں میں انھوں نے ایک بھی سچ نہیں بولا ہے ۔ ۔ سچ یہ ہے کہ منی بجٹ سے لگنے والے ٹیکسوں سے کاروبار مزید ختم اور معیشت سکڑ جائے گی ۔ دیکھا جائے تو عمران خان کا منی بجٹ لانے کی وجہ گزشتہ حکومتوں کو قرار دینا دماغی خلل کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ 350 ارب کے ٹیکسوں سے سیکڑوں اشیا مہنگی ہوں گی، ٹیکس سے جو سیکڑوں اشیامہنگی ہونے جا رہی ہیں اس کا عام مہنگائی پر اثر پڑے گا حکومت کا واحد معاشی مقصد اب صرف عوام سے ٹیکس بٹورنا رہ گیا ہے ۔ کیونکہ سی پیک تو دور کی بات یہ تو کوئی چھوٹی موٹی انڈسٹری لگانے میں بھی ناکام رہے ہیں ۔ پھر زراعت جو اچھی جا رہی تھی ۔ وہاں اس بار ڈبل داموں میں ڈی اے پی کی بوری بکی ہے ۔ وہ بھی سب کے سامنے ہیں ۔

۔ پھر اس منی بجٹ میں ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی تجاویز بھی تشویشناک ہیں یہ بجٹ نہیں لاکھوں افراد کو بےروزگار کرنے کا منصوبہ ہے۔ آج کے بعد اب کسی کو شک نہیں رہ جانا چاہیے کہ یہ حکومت آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہی ہے؟
اور ہمارے ملک کا وزیر خزانہ تخواہ تو ہمارے ٹیکسوں کے پیسوں سے لیتا ہے ۔ مگر اصل نوکری آئی ایم ایف کی کرتا ہے ۔۔ کیونکہ ایڈجسٹمنٹ اخراجات میں کٹوتیوں اور ٹیکس چھوٹ میں کمی کی وجہ سے بے روزگاری اور افراط زر میں اضافہ ہوگا عوام کو آگے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، کیا یہ وہ تبدلی ہے جس کا تبدیلی سرکار نے وعدہ کیا تھا؟ دیکھا جائے تو یہ ملک کو مدینہ کی ریاست نہیں، آئی ایم ایف کی کالونی بنا رہے ہیں، پہلے کہتے تھے آئی ایم ایف نہیں جائیں گے پی ٹی آئی حکومت یو ٹرن لے کر آئی ایم ایف چلی گئی، پھر کہتے تھے منی بجٹ نہیں ہوگا، اب منی بجٹ بم گرا رہے ہیں، جس سے مہنگائی کی سونامی آئے گی۔ پھر آج وزیراعظم کی زیرصدارت پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا ۔ پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں ارکان کو منی بجٹ کے خدوخال پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے اندر تو حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے منی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کر دیا تھا ۔ پر پاس کروانے میں ایم کیو ایم نے اپنا پورا کندھا حکومت سے ملا کر رکھا ۔ جبکہ پہلے ایم کیو ایم اراکین کا کہنا تھا کہ ہمارے تحفظات کو دور نہیں کیا گیا،منی بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔

۔ پر میں آپکو بتاوں یہ حکومت اپنے لوگوں کیا کسی اتحادی پر بھی اعتماد نہیں کر رہی ہے ۔ کیونکہ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین اجلاس کے لئے پہنچے تو اراکین کے موبائل فونز باہر رکھوا لیے گئے خواتین ارکان کے بیگز بھی باہر رکھوا دیئے گئے۔ پھر وزیراعظم عمران خان نے شہباز شریف پر کافی غصہ نکلا کہ اسمبلی میں شہبازشریف کی تقریر نہیں ہوتی جاب ایپلی کیشن ہوتی ہے۔ ہر تین ماہ بعد کہا جاتا ہے کہ حکومت مشکل میں ہے۔ حکومت کوئی مشکل میں نہیں۔ کہا جاتا ہے نواز شریف آج آرہے ہیں کل آرہے ہیں ۔ نواز شریف جب سعودی عرب گئے تب بھی یہی کہا جاتا تھا۔ میرے خیال سے عمران خان کو کافی دکھ ہے کہ شہباز شریف نے ایک بار پھر وہ کر دیکھایا ہے جو عمران خان نے شاید سوچا بھی نہ تھا ۔ کیونکہ ان کی نظر میں ان کے علاوہ اب کوئی آپشن باقی بچا ہی نہیں تھا ۔ پر شہباز شریف نے ایک بار پھر رابطے بحال کروا کر کم ازکم پی ٹی آئی کی ہوا ضرور نکال دی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ عوام اب انتظار کررہی ہے کہ کب الیکشن آئیں اور عمران خان سمیت پی ٹی آئی والے ووٹ مانگنے آئیں تو ہم ان کو تگنی کا ناچ نچوائیں ۔ ۔ کیونکہ آج غریب کا برا حال ہو چکا ہے۔ حکومت کے دلاسوں اور دعوؤں کےباوجود کوئی اُمیدنظر نہیں آ رہی کہ عوام مشکلات کی اِس دلدل سے کبھی نکل پائیں گے۔ اب بیرون ملک مقیم پاکستانی ہوں یا ملک میں مقیم پاکستانی ہر کوئی یہ ہی سوچ رہا ہے کہ اب اِس ملک کا کیا بنے گا؟ اور پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔ کسی کے پاس کوئی امید دینے کو نہیں ہے ۔ اِس وقت پاکستان بالخصوص ہماری نوجوان نسل میں مایوسی کی ایک لہر پھیل چکی ہے۔ جن کے پاس اِتنے وسائل ہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک جا کررہ سکتے ہیں وہ پاکستان سے بھاگے چلے جا رہے ہیں اور جو وسائل کی کمی کے باعث باہر نہیں جا سکتے وہ مایوسی اور مشکل سے گزر بسر کر رہے ہیں۔۔ اس سے زیادہ میں کیا کہوں ۔ یہ ہی ہے نئے پاکستانی کی کہانی ۔

Leave a reply