‏نظریہ پاکستان – لا الہ الا اللہ . تحریر : سید غازی علی زیدی

برصغیر پرپہلے مسلمان کے قدم رکھتے ہی نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلم و ہندو ایک نہیں دو الگ الگ اقوام؛ یہ تفریق جنس، رنگ یا نسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس نظریہ کی بنیاد پر ہے جس سے زیادہ مضبوط بنیاد روئے زمیں پر کوئی اور ہو نہیں سکتی اور وہ ہے لا الہ الا اللہ۔ یہی کلمہ نظریہ پاکستان کی روح ہے اور مسلمانان عالم کا ایمان بھی۔ اسی نظریہ کی بنیاد پر مملکت پاکستان معرض وجود میں آئی اور اسی عقیدہ پر تاقیامت قائم دائم رہے گی ان شاءاللہ۔

تقسیم ہند سے پہلے برصغیر میں مختلف قومیتیں آباد تھیں جن میں ہندوؤں کی غالب اکثریت تھی۔ جب تک ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی کبھی کوئی مسئلہ نہ ہوا کیونکہ دین اسلام رعایا کو مکمل مذہبی و معاشرتی آزادی دیتا۔ مسلم بادشاہت کے مختلف ادوار میں ہندو وزیروں مشیروں تک کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں مذہب و سماج کے معاملات میں پوری آزادی و خودمختاری حاصل تھی۔ لیکن انگریزوں کے برصغیر پر قبضہ کرتے ساتھ ہی ہندوؤں کی صدیوں پرانی چھپی مسلم دشمنی کھل کر سامنے آ گئی۔ ہندو بنیے کی ازلی فطرت "بغل میں چھری منہ میں رام رام” پورے طور پر آشکار ہو گئی۔ تہذیب، طرز بودو باش، نظریاتی فکر، کردار و عبادات‘ طرز معاشرت و معیشت غرض ہر شعبہ میں اختلاف کھل کر سامنے آ گئے۔ صدیوں سے ایک ساتھ رہتی دو الگ قومیتوں میں کوئی ایک چیز بھی مشترک نہ رہی۔
 اس نازک صورتحال میں کچھ مسلم اکابر و رہبران نے مسلمانوں کے حقوق حاصل کرنے کی ٹھانی کیونکہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ہندو بنیا نے اپنی مکاری و عیاری کے زریعے انگریز سرکار کو شیشے میں اتار لیا ہے اور تاج برطانیہ ہندو کو برصغیر کا اگلا حاکم تصور کر چکا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مربوط و منظم لائحہ عمل نہ اپنایا گیا تو مسلمانان برصغیر ہندوؤں کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ اس لئے عافیت اسی میں ہے کہ مسلمانوں کا علیحدہ وطن ہو جہاں پر وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق آزادی سے زندگی بسرکرسکیں۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال کے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے مسلمانان ہند نے قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر سرکردہ رہنماؤں کی زیر قیادت انتھک جدوجہد کی۔ جس کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن یہ تقسیم ہندوؤں نے کبھی دل سے قبول نہیں کی۔

قائد اعظم کی بہترین حکمت عملی کی بدولت انگریز اور ہندو نے مسلمانوں کے الگ ملک کے مطالبے کو تسلیم تو کر لیا لیکن ساتھ ہی تقسیم کے دوران منافرت، منافقت، اور تشدد آمیز رویے سے وہ بیج بویا جس کا زہریلا پھل آج بھی بھارتی مسلمان کھانے پر مجبور ہیں۔ کئی بتوں کے پجاری منہ میں کئی زبانیں اور سینے میں بغض و نفرت بھرا دل رکھتے ہیں۔ وہ متعصب قوم جس کی بنیاد ہی چھوت چھات اور ذات پات پر رکھی گئی ہو وہ بھلا کیسے ایک خدا کو ماننے والوں کو برداشت کر سکتے؟ مکاری میں ید طولیٰ رکھنے والے، جن کی پوری سیاست جھوٹ ‘ فراڈ‘ وعدہ خلافی اور دھوکا دہی کی بنیاد پر قائم ہے وہ بے غرض کیسے کسی اور قوم کے ہمدرد ہو سکتے؟

 قائداعظم ؒ، ڈاکٹر علامہ اقبالؒ، نوابزادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، سرسید احمد خاں، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر اور دیگر رہنما و رہبر اگر اپنی دور اندیشی اور بصیرت افروزی کی بدولت آج کے ہندوتوا نظریے کو نہ جانچتے تو ہمارا حال بھی بھارتی و کشمیری مسلمانوں سے مختلف نہ ہوتا۔ جن کی نہ تو عزتیں محفوظ ہیں نہ جان۔ نہ مذہبی آزادی ہے اور نہ ہی کوئی معاشرتی مقام۔ گنتی کے چند مسلمان فنکار ہیں جن کو بھارت سیکولرازم کا جھوٹا چہرہ دنیا کو دکھانے کیلئے عزت دیتا اور وہ فنکار بھی ہندو سرکار کو خوش کرنے چکر میں آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بن چکے ہیں۔ کبھی ہندو عورتوں سے شادی کرتے تو کبھی بتوں کو سجدہ کرتے۔ اس کے باوجود انتہا پسند ہندوؤں سے ان کو مسلسل خطرہ رہتا۔

آئیے مل کر سجدہ شکر ادا کریں اور جدوجہد آزادی کے علمبرداروں کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کریں جن کی بدولت ہم آزاد مملکت کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

@once_says

Leave a reply