اسرائیلی عدالت نے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے کرپشن ٹرائل کو دو ہفتے کے لیے مؤخر کر دیا ہے۔
یروشلم ڈسٹرکٹ کورٹ نے نیتن یاہو کو سفارتی اور قومی سلامتی کے امور کی وجہ سے حاضری سے استثنیٰ دے دیا،یہ فیصلہ اس وقت آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے خلاف مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کیس کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد اسرائیلی عدالت کا فیصلہ سامنے آیا، جس میں کہا گیا کہ امریکی امداد کا فیصلہ بھی اس کیس کے نتیجے پر منحصر ہو سکتا ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس کی ضلعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’پیش کی گئی وضاحتوں کی روشنی میں، ہم جزوی طور پر درخواست قبول کرتے ہیں اور اس مرحلے پر نیتن یاہو کی رواں ہفتے کی سماعتیں منسوخ کرتے ہیں‘، یہ فیصلہ نیتن یاہو کی جماعت لیکود نے آن لائن شائع کیا۔
یہود و ہنود گٹھ جوڑ، بھارتی سافٹ ویئرز کے ذریعے اسرائیلی جاسوسی بےنقاب
نیتن یاہو کے وکلا نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ انہیں آئندہ دو ہفتوں تک گواہی سے مستثنیٰ رکھا جائے تاکہ وہ ایران کے ساتھ جنگ بندی کے بعد کی سیکیورٹی صورتحال اور غزہ میں جاری لڑائی، جہاں اسرائیلی قیدی بھی موجود ہیں، پر توجہ مرکوز کر سکیں، وکلا نے نیتن یاہو کا شیڈول عدالت میں جمع کروایا تاکہ ثا بت کیا جا سکے کہ ’وزیر اعظم کو سیاسی، قومی اور سیکیورٹی معاملات پر اپنی تمام توانائیاں صرف کرنے کی قومی ضرورت ہے‘۔
عدالت نے ابتدائی طور پر ان کی درخواست مسترد کر دی تھی، لیکن اتوار کو جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ وزیر اعظم، ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ اور موساد کے چیف کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ تبدیل کیا گیا ہے-
یہود و ہنود گٹھ جوڑ، بھارتی سافٹ ویئرز کے ذریعے اسرائیلی جاسوسی بےنقاب
واضح رہے کہ اسرائیلی عدالت نے دو روز قبل نیتن یاہو کی سماعت مؤخر کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی، لیکن اس کے بعد جب نئے سفارتی و قومی امور کی وجہ سے سماعت کا مؤخر کیا گیا، تو اس بات نے مزید عالمی توجہ حاصل کی، نیتن یاہو پر تین مقدمات میں رشوت، دھوکادہی اور اعتماد شکنی کے الزامات ہیں، جن کے نتیجے میں ان کی سیاسی شہرت اور اسرائیلی حکومت کے مستقبل پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔