بھارت سے مذاکرات، فتح پر سمجھوتہ؟ ہرگز نہیں!

3 ہفتے قبل

بھارت سے مذاکرات، فتح پر سمجھوتہ؟ ہرگز نہیں!
قوم کی نظریں قیادت پر، میدان کی جیت کو میز پر ہارنے نہ دیا جائے!
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰبڈانی
اس کالم کا مقصد پاکستانی قوم اور اس کے اداروں کو خبردار کرنا ہے کہ مذاکرات کی میز پر کوئی ایسی کمزوری نہ دکھائی جائے جو میدان جنگ میں حاصل کی گئی فتح کو سیاسی شکست میں بدل دے۔ پاکستانی عوام اپنی فوج اور حکومت سے اس وقت غیر معمولی توقعات رکھتے ہیں اور کوئی غلطی ناقابل معافی ہوگی۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ محدود جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے سیز فائر نے خطے کی سیاسی و عسکری صورتحال کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس کے نظریاتی بازو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کے ہمنوا "گودی میڈیا” کی جانب سے اس شکست کو کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت اپنی عسکری ناکامیوں کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور موجودہ صورتحال میں بھی یہی کوشش جاری ہے۔ بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ماضی میں متعدد بار اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پروپیگنڈے اور سفارتی چالوں کا سہارا لیا ہے۔ 1965 کی جنگ میں بھارت نے اسے اپنی فتح کے طور پر پیش کیا حالانکہ پاکستانی افواج نے لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر بھارتی پیش قدمی کو روک دیا تھا۔ جنگ کے بعد بھارتی میڈیا نے اپنی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ بھارت نے پاکستان کو سبق سکھایا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت پاک فوج نے بھارت کو شکست دوچارکیا تھا۔ اسی طرح 1999 کی کارگل جنگ میں پاک فوج کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی تھی لیکن بھارت نے عالمی دباؤ اور سفارتی چالوں کے ذریعے اسے اپنی فتح کے طور پر پیش کیا۔ بھارتی میڈیا نے اسے "آپریشن وجے” کے نام سے پروموٹ کیا حالانکہ پاکستانی فوج نے بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود اپنی عسکری صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔

2019 کے پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے بالاکوٹ میں "سرجیکل سٹرائیک” کا دعویٰ کیا لیکن پاکستانی فضائیہ نے 27 فروری 2019 کو بھارتی طیاروں کو مار گرا کر اور ایک پائلٹ ابھینندن ورتھمان کو گرفتار کر کے بھارت کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔ اس کے باوجود بی جے پی نے اس واقعے کو الیکشن مہم میں استعمال کر کے اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کی۔ ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت اپنی عسکری ناکامیوں کو میڈیا پروپیگنڈے اور سفارتی چالوں کے ذریعے سیاسی فائدے میں بدلنے کی مہارت رکھتا ہے۔ موجودہ سیز فائر کے بعد بھی یہی کوشش متوقع ہے، خاص طور پر جب بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بہار کے الیکشن میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور الیکشن کیلئے ہی پہلگام فالزفیلگ اپریشن کیا اور اسی کا بہانا بنا پاکستان پر شب خون مارا ،جس میں مساجد اور معصوم بچے ،خواتین اور بزرگ شہید ہوئے۔

بھارت کی حالیہ عسکری ناکامی کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے کئی چالوں کا امکان ہے۔ بھارت یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ سیز فائر اس کی سفارتی کامیابی ہے اور پاکستان نے دباؤ میں آ کر اسے قبول کیا۔ گودی میڈیا اس بیانیے کو تقویت دینے کے لیے جھوٹے دعوؤں اور گمراہ کن رپورٹس کا سہارا لے رہا ہے، جیسا کہ حالیہ سوشل میڈیا میں بھارتی صحافیوں کے پروپیگنڈے کے دعوؤں سے ظاہر ہوتا ہے۔ بھارت مذاکرات سے پہلے یا دوران پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا کر عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے، جیسا کہ 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد دیکھا گیا۔ بی جے پی بہار کے الیکشن میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اس سیز فائر کو "مودی کی قیادت میں بھارت کی طاقت” کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔ ماضی میں بی جے پی نے ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح جیسے واقعات کو الیکشن میں سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا تھا حالانکہ وہ حلقہ 2024 کے الیکشن میں ہار گئی۔ مذاکرات کی میز پر بھارت غیر حقیقت پسندانہ مطالبات پیش کر سکتا ہے جیسے کہ کشمیر کے معاملے پر یک طرفہ رعایت یا پاکستانی سرزمین سے مبینہ دہشت گردی کے خاتمے کا مطالبہ۔ یہ مطالبات مذاکرات کو سبوتاژ کرنے اور پاکستان کو کمزور پوزیشن میں دکھانے کے لیے ہوں گے۔

پاکستانی قوم اس وقت اپنی فوج اور حکومت سے غیر معمولی توقعات رکھتی ہے۔ حالیہ آپریشن "بنیان مرصوص” میں پاکستانی فضائیہ اور مسلح افواج نے بھارت کے عسکری دعوؤں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ عوام میں پاک فوج اور حکومت کی مقبولیت عروج پر ہے اور یہ مقبولیت ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ لیکن یہ سرمایہ مذاکرات کی میز پر ایک غلط فیصلے سے ضائع ہو سکتا ہے۔ پاکستانی عوام یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ وہ میدان جنگ میں جیتی ہوئی فتح کو سیاسی طور پر ہارنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر پاکستانی قیادت نے بھارت کے دباؤ میں آ کر کوئی کمزوری دکھائی، جیسے کہ غیر ضروری رعایت دینا یا بھارت کے پروپیگنڈے کا مقابلہ نہ کرنا تو عوام اسے ہرگز معاف نہیں کریں گے۔ سوشل میڈیا خاص طورایکس (سابقہ ٹویٹر) پر پاکستانی صارفین کے تبصروں سے واضح ہے کہ عوام اپنی فوج کی کارکردگی پر فخر کرتے ہیں اور بھارت کی ناکامی کو اپنی فتح سمجھتے ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ جو اس فتح کو کمزور کرے، عوامی غم و غصے کو دعوت دے گا۔

پاکستان کو مذاکرات کی میز پر مضبوط پوزیشن کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے واضح کرنا ہوگا کہ سیز فائر بھارت کی عسکری ناکامی کا نتیجہ ہے۔ عالمی میڈیا اور اقوام متحدہ جیسے فورمز پر اس بیانیے کو تقویت دی جائے۔ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیموں کو بھارتی گودی میڈیا کے جھوٹے دعوؤں کا فوری اور ٹھوس جواب دینا ہوگا۔ بھارت کے دعوؤں کی آزاد تصدیق کے لیے انٹرنیشل میڈیا کو دعوت دی جائے۔ پاکستان کو کشمیر سمیت تمام اہم ایشوز پر اپنے اصولی موقف پر ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ بھارت کے غیر حقیقت پسندانہ مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے مذاکرات کو مثبت سمت میں رکھا جائے۔ پاکستانی قیادت کو عوام کو اعتماد میں لے کر ہر فیصلے کی شفافیت یقینی بنانی ہوگی۔ عوام کی حمایت پاکستانی پوزیشن کی سب سے بڑی طاقت ہے اور اسے کسی بھی قیمت پر کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔

بھارت کی حالیہ عسکری ناکامی اور سیز فائر اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کی عسکری طاقت اور قومی عزم بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ لیکن یہ فتح اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک مذاکرات کی میز پر اسے سیاسی کامیابی میں تبدیل نہ کیا جائے۔ بھارت کی تاریخی چالیں اور موجودہ پروپیگنڈا حکمت عملی اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے ہر حربہ آزمائے گا۔ پاکستانی قیادت اور اداروں کو اس حقیقت سے آگاہ رہنا ہوگا کہ عوام کی نظریں ان پر ہیں اور کوئی غلطی ناقابل معافی ہوگی۔ پاکستانی قوم اپنی فتح پر فخر کرتی ہے اور وہ اس فتح کو کسی بھی قیمت پر ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں

Latest from بلاگ