نیلسن منڈیلا، حقوق انسانی اور کشمیر

0
61

نیلسن روہیلا منڈیلا، (پیدائش: 18 جولائی 1918ءترانسکی، جنوبی افریقا) جنوبی افریقا کے سابق اور پہلے جمہوری منتخب صدر ہیں جو 99-1994 تک منتخب رہے۔ صدر منتخب ہونے سے پہلے تک نیلسن منڈیلا جنوبی افریقامیں نسلی امتیاز کے کٹر مخالف اور افریقی نیشنل کانگریس کی فوجی ٹکڑی کے سربراہ بھی رہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں سے برتے جانے والے نسلی امتیاز کے خلاف انھوں نے تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور جنوبی افریقہ کی عدالتوں نے ان کو مختلف جرائم جیسے توڑ پھوڑ، سول نافرمانی، نقض امن اور دوسرے جرائم کی پاداش میں قید با مشقت کی سزا سنائی۔ نیلسن منڈیلا اسی تحریک کے دوران لگائے جانے والے الزامات کی پاداش میں تقریباً 27 سال پابند سلاسل رہے، انھیں جزیرہ رابن پر قید رکھا گیا۔ 11 فروری 1990ء کو جب وہ رہا ہوئے تو انھوں نے پر تشدد تحریک کو خیر باد کہہ کہ مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا جس کی بنیاد پر جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کو سمجھنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوئی۔
نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کے خاتمے کے بعد نیلسن منڈیلا کی تمام دنیا میں پزیرائی ہوئی جس میں ان کے مخالفین بھی شامل تھے۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کو “ماڈیبا“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو منڈیلا خاندانکے لیے اعزازی خطاب ہے۔ 
جیل کا وہ کمرہ جہاں نیلسن منڈیلا 27 سال قید رہے آج نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ اور تمام دنیا میں ایک تحریک کا نام ہے جو اپنے طور پر بہتری کی آواز اٹھانے میں مشہور ہے۔ نیلسن منڈیلا کو ان کی چار دہائیوں پر مشتمل تحریک و خدمات کی بنیاد پر 250 سے زائد انعامات سے نوازا گیا جن میں سب سے قابلذکر 1993ءکا نوبل انعام برائے امن ہے۔ نومبر 2009ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 جولائی (نیلسن منڈیلا کا تاریخ پیدائش) کو نیلسن منڈیلا کی دنیا میں امن و آزادی کے پرچار کے صلے میں “یوم منڈیلا“ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔نیلسن منڈیلا کی خدمات میں سے ایک اہم ترین کام آزادی کا حصول ہے ۔نیلسن منڈیلا نسلی امتیاز سے پاک تھے اور انہوں نے اسی آواز کو بلند کرنے کے جرم میں 27 سال جیل کے کمرے میں گزارے۔جس طرح نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں آزادی، نسلی تعصب سے پاک اور برابری کی آواز بلند کی ۔اسی طرح اگر دیکھا جائے تو مسلمان کشمیر کے ہو تو ان پر بھارت اپنی طاقت کی وجہ سے مسلط ہے۔ماوں کی عزتیں لوٹ رہا ہے۔معصوم بچوں کی بینائی چھین رہا ہے ۔مسلمانوں کو وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہی ہے۔جیسا کہ 22 نوجوان ایک اذان کو مکمل کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں نے شہید کر دئیے۔اسی طرح کشمیر جو کہ گلشن تھا اس میں اپنی کم و بیش 8 لاکھ آرمی داخل کر کے اسے فوجی چھاونی میں بدل دیا۔اگر کوئی پرامن احتجاج کرے تو ان پر شیلنگ کی جاتی ہے۔یہ کہاں کا انصاف ہے ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کدھر گئی ۔جیسا کہ نیلسن منڈیلا کا ہی ایک قول ہے:-
*I am fundamentally an optimist. Whether that comes from nature or nurture, I cannot say. Part of being optimistic is keeping one’s head pointed toward the sun, one’s feet moving forward. There were many dark moments when my faith in humanity was sorely tested, but I would not and could not give myself up to despair. That way lays defeat and death* .
اقوام متحدہ کو چاہیے کہ کشمیر مسلمانوں کی آہیں سنے ،اس کے علاوہ فلسطین کو دیکھ لے جس پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہوا۔اسرائیل کے پاس طاقت ہے اسلحہ ہے ٹینک ہے اس لیے اس نے طاقت کی بنا پر فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے۔اسرائیلی فوج نے فلسطینی عوام کا بے پناہ خون بہایا ہے۔وہ فلسطینی بچے، کشمیری بچے ،برما کی عوام اقوام متحدہ کی طرف دیکھتے ہیں لیکن اقوام متحدہ کوئی قدم ہی نہی اٹھاتی۔کیا یہ اقوام متحدہ کے قوانین جو ہے یہ بھارت پر ،اسرائیل پر ،امریکہ پر ،روس پر لاگو نہی ہوتے صرف و صرف مسلمانوں پر ہی ہوتے ہیں ۔
اللہ تمام مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے نوازے

Leave a reply