نعمتوں کی قدر — انجنئیر ظفر اقبال وٹو

کووِڈ کے دوران ایک سینئیر پروفیشنل انجنئیر خلیجی ملک سے اپنی نوکری سے فارغ ہوگئے اور کئی ماہ بے روزگار رہنے کے بعد بالآخر ہماری فرم میں ایک منیجمنٹ پوزیشن کے لئے منتخب ہوگئے۔ پراجیکٹ سائٹ ان کے گھر ملتان سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ایک ضلعی ہیڈ کوارٹر سطح کے شہر میں تھی جہاں انہوں نے ہر وقت موجود رہ کر اپنی ٹیم سے کام کروانا تھا سوائے ہفتہ وار چھٹی کے جو کہ تعمیراتی منصوبوں میں جمعہ والے دن ہوتی ہے۔

شروع میں چند دن انہوں نے ٹھیک ٹھاک کام کیا لیکن پھر روزانہ پراجیکٹ کی گاڑی پر ملتان سے آنا جانا شروع کردیا۔ مجھ تک بات پہنچی تو ان سے رابطہ کرکے کہا کہ آپ کو ہر وقت سائٹ پر ہونا چاہئے جہاں کمپنی نے آپ کو رہائش ، کھانے اور ٹرانسپورٹ کی سہولت دی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے والدین کی خراب صحت کا بتایا اور وعدہ کیا کہ یہ چند دن کی بات ہے اور والدین کی صحت بہتر ہوتے ہی وہ دوبارہ سائٹ پر شفٹ ہو جائیں گے۔

تاہم وہ دن نہ آیا اور اب انہوں نے روزانہ دس گیارہ بجے سائٹ پر پہنچنا اور تین بجے ملتان واپسی کرنا شروع کردی۔ پھر ہر ہفتے ایک آدھ دن ناغہ مارنا شروع کردیا ۔ ہمارے بار بار رابطہ کرنے پر وہ بتاتے کہ وہ سائٹ پر مکمل رابطے میں ہیں اور کلائنٹ کو بھی سنبھالا ہوا ہے جس کا دفتر ملتان میں تھا۔ تاہم ہم نے انہیں فوراً سائٹ پر شفٹ ہونے کا کہا لیکن ان کی روٹین تبدیل نہ ہوئی ۔ ان کے بقول وہ بیمار والدین کو کسی کے حوالے نہیں کر سکتے جس پر ہم نے انہیں ایک دو ماہ چھٹی لینے یا پھر جاب تبدیل کرنے کی آفر کی مگر انہوں نے سابقہ روٹین برقرار رکھی۔

ہم نے پراجیکٹ کی بگڑتی صورت حال کے پیشِ نظر ایک اور قابل بندے کو سیلیکٹ کرکے ان کی جگہ بھیج دیا کہ چارج ان کے حوالے کردیں۔ وہ فرم کے صدر دفتر حاضر ہوئے معافی تلافی کی اور آئندہ سے نظم و ضبط کی پابندی کے وعدے کے ساتھ پھر سے سائٹ پر شفٹ ہو گئے۔ ایک آدھ مہینہ صحیح نکالنے کے بعد وہ دوبارہ پرانی روٹین پر آگئے اور کلائنٹ کے لوگوں کے ساتھ گروپ بنا کر ہفتے میں دو تین دن غائب رہنے لگے۔

ہم نے انہیں ایک مہینہ کا ایڈوانس نوٹس دے کر نیا انجنئیر سائٹ پر بھیج دیا اور ان کو گھر بھیج دیا۔ کچھ عرصہ تو انہوں نے مختلف ذرائع سے دباؤ ڈلوا کر واپس آنے کی کوشش کی لیکن الحمدللّٰہ ناکام رہے اور اس عرصے میں نئے بندے نے کام سنبھال لیا اور پراجیکٹ سیدھا ہونے لگا۔کبھی کبھار پرانے بندے کو فارغ کرنے پر افسوس بھی ہوتا لیکن ان کی وجہ سے کام بھی کافی متاثر ہورہا تھا۔

کچھ دن پہلے ان کا دوبارہ میسیج آیا ہے کہ آپ نے تو مجھے فارغ کردیا تھا لیکن میں پھر خلیج آگیا ہوں، اس سے کئی گنا بہتر جاب پر۔ سوچ رہا ہوں اس کے بیمار والدین کس حال میں ہوں گے؟ اس پراجیکٹ پر تو وہ ہفتے میں ایک دو دن انہیں ملنے جا سکتا تھا لیکن خلیج سے تو شائد ایک دو سال بعد ہی واپس آنا نصیب ہو۔ ہم کیوں نہیں اپنی موجود نعمتوں کی قدر کرتے؟

Comments are closed.