نیپال میں حالیہ پرتشدد مظاہروں کے دوران شدید جھڑپوں میں 51 افراد ہلاک اور 1,300 سے زائد زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں 21 مظاہرین، 9 قیدی، 3 پولیس اہلکار اور 18 دیگر افراد شامل ہیں۔
احتجاج 8 ستمبر کو اس وقت شروع ہوا جب ہزاروں نوجوانوں نے کٹھمنڈو میں پارلیمنٹ کے قریب حکومت مخالف ریلی نکالی۔ مظاہرین نے نیپالی قیادت پر کرپشن، اقربا پروری اور خود غرضی کے الزامات لگائے۔ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عارضی پابندی بھی عوامی غصے کی ایک بڑی وجہ بنی، اگرچہ یہ پابندی اسی روز ہٹا دی گئی تھی۔
صورتحال اس وقت سنگین ہوگئی جب مشتعل ہجوم نے صدارتی محل اور دیگر سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی۔ بعد ازاں وزیراعظم کے پی شرما اولی مستعفی ہو کر محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے۔حکام کے مطابق صرف کٹھمنڈو میں 17 جبکہ مشرقی شہر ایتہری میں 2 افراد ہلاک ہوئے۔ 9 ستمبر کی رات فوج نے دارالحکومت کا کنٹرول سنبھال لیا۔
جمعرات 11 ستمبر کو فضائی اڈہ دوبارہ کھلنے اور بین الاقوامی پروازیں بحال ہونے کے بعد بڑی تعداد میں شہری ملک چھوڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ ادھر اطلاعات ہیں کہ نیپال کی سابق چیف جسٹس سشیلہ کرکی کو عبوری وزیراعظم مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
ایشیا کپ: پاکستان کی عمان کے خلاف بیٹنگ جاری