نئی سفارت کاری، نیا پاکستان. خواب سے حقیقت تک کا سفر 
پاکستان کی خارجہ پالیسی نے 2025 میں جو فاصلہ طے کیا، وہ کسی معجزے سے کم نہیں، ایک نئے خودمختار دور کا آغاز 
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
امریکی اخبار Foreign Policy Magazine (واشنگٹن ڈی سی) میں 23 اکتوبر 2025 کو شائع ہونے والی رپورٹ “Pakistan’s Year of Diplomatic Miracles” کے مطابق، رواں برس پاکستان نے بین الاقوامی محاذ پر ایسی سفارتی کامیابیاں حاصل کیں جنہیں تجزیہ کار ایک “غیر معمولی تبدیلی” قرار دے رہے ہیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ برسوں کی بے یقینی، معاشی دباؤ اور سیاسی بحران کے باوجود اپنی خارجہ پالیسی کو ایک نئی سمت دی ہے جو “خودمختاری، توازن اور معاشی مفاد” پر مبنی ہے۔ امریکی ماہرِ امورِ خارجہ رابرٹ اے میننگ کے مطابق پاکستان نے عالمی سطح پر “ردِ عمل دینے والی ریاست” کے بجائے “پیش قدمی کرنے والی قوت” کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ پاکستان نے بیک وقت چین، امریکا، سعودی عرب، ایران اور روس جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کیا اور جنوبی ایشیا میں اپنی حیثیت کو ازسرِ نو منوایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ وہ سفارتی مقام ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کے لیے خواب بن چکا تھا، مگر 2025 میں اسے عملی شکل دی گئی۔ مزید یہ کہ اخبار کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی نے 2025 میں نہ صرف واشنگٹن کے ساتھ تعلقات بحال کیے بلکہ بھارت کے ساتھ کشیدگی میں کمی، چین کے ساتھ معاشی و دفاعی شراکت میں وسعت، سعودی عرب و خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے بڑے معاہدے اور ایران و روس کے ساتھ اقتصادی تعاون کو نئی جہت دی۔
رپورٹ میں زور دیا گیا کہ پاکستان اب بلاک سیاست سے ہٹ کر ایک “خودمختار توازن” کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت وہ ہر عالمی طاقت سے اپنے قومی مفاد کے مطابق تعلقات استوار کر رہا ہے۔ امریکی مصنف نے اسے پاکستان کی سفارتکاری کا “نیا جنم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نے اس برس سفارتی طور پر جو فاصلہ طے کیا ہے، وہ کسی معجزے سے کم نہیں، بشرطیکہ یہ سمت داخلی استحکام اور معاشی اصلاحات کے ذریعے برقرار رکھی جائے۔
یہ تجزیہ نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کے لیے اعتراف کی علامت ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ پاکستان اب محض ردِعمل دینے والی ریاست نہیں رہا بلکہ اپنے فیصلوں میں دانشمندی اور خودمختاری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ افغانستان کی غیر یقینی صورتِ حال، بھارت کی جارحانہ پالیسی اور مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے باوجود پاکستان نے اپنے قدم اس طرح جمائے ہیں کہ وہ خطے میں ایک مستحکم ثالثی کردار میں ابھر رہا ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں کی توسیع، وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ نئی تجارتی راہداریوں کی تعمیر اور ایران کے ساتھ توانائی کے تعاون نے خطے میں ایک نئے جغرافیائی و معاشی توازن کو جنم دیا ہے۔ ان پالیسی اقدامات نے نہ صرف پاکستان کی معیشت کو نئی امید دی بلکہ اسے ایک ایسی جغرافیائی اہمیت پر لا کھڑا کیا جہاں وہ مشرق اور مغرب دونوں کے درمیان رابطے کا مرکز بن سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکا کے ساتھ تعلقات کی بحالی ایک اہم سنگ میل ہے۔ واشنگٹن جو کبھی پاکستان پر “ڈو مور” کے دباؤ کے ساتھ نظر آتا تھا، اب پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری اور توانائی تعاون کی سطح پر نئے امکانات تلاش کر رہا ہے۔ دفاعی شعبے میں محدود مگر بااعتماد رابطے بحال ہونا اور سفارتی رابطوں کا تسلسل اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان اپنی پوزیشن کو متوازن رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ کامیابی اس وقت اور بھی اہم ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اپنی جارحانہ پالیسیوں کے باعث خطے میں سفارتی طور پر تنہا ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کی غیر جانبدارانہ اور امن دوست حکمتِ عملی نے اسے عالمی فورمز پر پذیرائی دلائی ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سرمایہ کاری کے نئے معاہدے، گوادر سے لے کر خیبر تک توانائی و انفراسٹرکچر منصوبوں میں شمولیت اور روس کے ساتھ تیل و گیس کی تجارت پر پیش رفت ، یہ سب اس نئی خارجہ پالیسی کے عملی مظاہر ہیں۔ اس سمت میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ پاکستان نے اب امداد نہیں بلکہ سرمایہ کاری کو ترجیح دی ہے۔ اس نے اپنی معاشی خودمختاری کو خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی طاقتیں پاکستان کو ایک “ڈیویلپمنٹ پارٹنر” کے طور پر دیکھنے لگی ہیں، نہ کہ صرف ایک اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر۔
"2025 وہ سال ہے جب پاکستان نے سفارتکاری کی دنیا میں اپنی نئی پہچان پیدا کی ہے ،جیسے ایک خواب نے حقیقت کا لباس پہن لیا ہو، اور ایک خاموش خواہش نے عالمی منظرنامے پر اپنی آواز بلند کر دی ہو۔ مگر اس کامیابی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے اندرونی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ معیشت کی مضبوطی، گورننس میں شفافیت اور سیاسی استحکام وہ بنیادیں ہیں جن پر خارجہ پالیسی کا یہ نیا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ اگر اندرونی سطح پر اتفاقِ رائے اور پالیسی تسلسل قائم نہ رہا تو یہ سفارتی پیش رفت وقتی ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر پاکستان نے اپنی موجودہ سمت کو برقرار رکھا تو آنے والے برسوں میں وہ خطے کے لیے ایک اقتصادی پل، امن کا ضامن اور بین الاقوامی تعلقات کا قابلِ اعتماد مرکز بن سکتا ہے۔
عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں جاری تبدیلی کے اس نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر پاکستان کا کردار غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ وہ تاریخی لمحہ ہے جب قومیں ماضی کی زنجیروں کو توڑ کر مستقبل کی سمت قدم بڑھاتی ہیں، اور اپنی شناخت کو نئے سانچے میں ڈھالتی ہیں۔ اگر پاکستان نے اپنی موجودہ خارجہ حکمتِ عملی میں تسلسل، بصیرت اور استقامت برقرار رکھی تو 2025 صرف ایک کیلنڈر سال نہیں رہے گا بلکہ تاریخ کے اوراق میں ایک نئے عہد کی بنیاد کے طور پر رقم ہو گا ، ایسا عہد جس میں پاکستان نہ صرف خطے کا فعال حصہ ہو گا بلکہ اس کی قیادت، رہنمائی اور سمت متعین کرنے والا مرکزی کردار ادا کرے گا۔












