نئی نسل اور بدلتی اقدار
تحریر: جواد اکبر بھٹی (چراغِ آگہی)، ڈیرہ غازی خان
21ویں صدی کو بلاشبہ ترقی کا دور کہا جاتا ہے۔ دنیا کی تیز رفتاری نے ہمارے گھروں کی روایتی رفتار کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج کی نوجوان نسل کے پاس ہر جدید سہولت موجود ہے، لیکن اس سہولت کا دوسرا رخ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا غلبہ ہے، جس کی قیمت ہم نے اپنے رشتوں اور روایات سے دوری کی صورت میں ادا کی ہے۔ آج کے دور میں رشتے کاغذی پھولوں کی مانند ہو گئے ہیں، گھروں میں موبائل فون کی روشنی تو ہے مگر آنکھوں میں اپنوں کے لیے وہ چمک باقی نہیں رہی۔

وہ گھر جہاں کبھی بزرگوں کی باتوں میں تاریخ اور نصیحتوں کے خزانے ملتے تھے، اب خاموش ہیں۔ ماں باپ کے پاس وقت کم ہے، اولاد کے پاس صبر نہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنی دنیا کا قیدی بن کر رہ گیا ہے۔ "پرسنل اسپیس” کے نام پر خاندان اور دوست ٹوٹ رہے ہیں اور محبتیں کمزور پڑ رہی ہیں۔ ہم نے مغرب سے آئیڈیالوجی اور رول ماڈلز کو کاپی پیسٹ تو کیا ہے، مگر شاید ان کی حقیقی روح کو سمجھنے اور اپنی تہذیب کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں کامیابی کی تعریف بھی بدل گئی ہے۔ اب ڈگری، نوکری اور گاڑی کو ہی اصل کامیابی سمجھا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دولت انسان کو عظیم بنا دیتی ہے؟ یہ سوچ آخر کس طرح پروان چڑھی؟ اصل کامیابی تو یہ ہے کہ انسان اپنے بڑوں کا احترام زندہ رکھے، ایثار کو اپنائے، صبر کو شعار بنائے اور دوسروں کے کام آئے۔ جیسا کہ کسی کا مشہور قول ہے:

"ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا”

یہی وہ اقدار ہیں جن پر ہماری تہذیب کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

قوموں کی بقاء کا راز
قوموں کی بقاء عمارتوں اور ٹیکنالوجی سے نہیں، بلکہ خاندانوں کی مضبوطی اور رشتوں کی پاسداری سے ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اپنی نوجوان نسل کو ان اقدار کا احساس نہ دلایا تو آنے والے کل میں ہماری شناخت محض تاریخ کی کتابوں میں باقی رہ جائے گی۔

خود احتسابی کا وقت
اب وقت ہے کہ ہم خود احتسابی کریں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کریں، لیکن رشتوں کو پسِ پشت نہ ڈالیں۔ موبائل کو سہولت تک محدود رکھیں، اسے زندگی کا مرکز نہ بنائیں۔ والدین کی خدمت، بڑوں کی دعائیں، خاندانی محبت، اور دوستوں کا اعتماد ہی وہ سرمایہ ہے جو دنیا کی ہر کامیابی سے زیادہ قیمتی ہے۔

مشینوں نے دے دی سہولت ہزار،
مگر رشتوں کی گرمی گئی کس کے پاس؟

ترقی کی دوڑ نے سب کچھ چھین لیا،
بچپن، محبت، بزرگوں کا سینہ خالی ہوا

یاد رکھیں، ترقی وہ نہیں جو ہمیں مشینوں کا غلام بنا دےبلکہ ترقی وہ ہے جو ہمیں رشتوں کا امین بنائے اور انسانیت کا علمبردار ثابت کرے۔ آئیے فیصلہ کریں کہ ہم وہ نسل نہیں بنیں گے جو اپنی جڑوں کو کاٹ کر کھوکھلا درخت بن جائے۔ ہم وہ نسل ہوں گے جو اپنے کلچر، اپنی اقدار اور اپنے رشتوں کو تھام کر دنیا کو یہ دکھائے کہ اصل ترقی انسانیت، محبت اور قربانی کا نام ہے۔

Shares: