پاکستان کی ٹرانسپورٹیشن کی دنیا میں خواتین کے لیے ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے ندا صالح نے پہلی بار بطور خاتون ٹرین ڈرائیور اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔

لاہور کی اورنج لائن میٹرو ٹرین کی ڈرائیونگ میں تربیت حاصل کرنے والی ندا نے نہ صرف اپنے جذبے اور محنت کی بدولت یہ مقام حاصل کیا بلکہ اس سنگِ میل نے پاکستانی خواتین کے لیے تکنیکی اور روایتی طور پر مردوں کے لیے مخصوص شعبوں میں نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ندا صالح نے اس تاریخی کامیابی کے لیے چینی اور پاکستانی ماہرین کی جانب سے فراہم کردہ جدید تربیتی پروگرام میں شرکت کی، جس میں انہیں میٹرو ٹرین کے تمام فنی، تکنیکی اور حفاظتی پہلوؤں کی مکمل جانکاری دی گئی۔ اورنج لائن میٹرو کے اس جدید ٹرانزٹ نظام میں تربیت حاصل کرنا آسان نہیں تھا، تاہم ندا نے اپنے عزم اور ہنر کے ذریعے اس چیلنج کو کامیابی میں بدل دیا۔

ندا صالح نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بچپن سے ہی انہیں ریل گاڑیوں اور ان کی ڈرائیونگ کا گہرا شوق تھا۔ انہوں نے ٹرانسپورٹیشن انجینئرنگ میں گریجویشن مکمل کی اور اورنج لائن منصوبے میں انجینئرنگ کے شعبے میں ملازمت کے لیے درخواست دی۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میٹرو ٹرین ڈرائیورز کی تربیت جاری ہے تو انہوں نے چینی انتظامیہ سے درخواست کی کہ خواتین کو بھی اس تربیتی پروگرام میں شامل کیا جائے، جس پر مثبت ردعمل آیا اور انہیں اس پروگرام کا حصہ بنایا گیا۔ندا نے بتایا کہ شروع میں ان کے اہلِ خانہ نے اس غیر روایتی پیشے میں ان کے شامل ہونے پر کچھ تشویش ظاہر کی، مگر ان کے عزم، محنت اور سنجیدگی کو دیکھ کر انہوں نے مکمل حمایت کی اور آج ندا اس میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے میں کامیاب ہوئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹرین چلانا بظاہر آسان کام نظر آتا ہے مگر یہ ایک انتہائی ذمہ داری کا کام ہے جو مکمل توجہ، نظم و ضبط اور حفاظتی معیار کی پابندی کا متقاضی ہے۔ ندا روزانہ ٹرین آپریٹ کرنے سے پہلے ذاتی طور پر تمام سروسنگ اور مینٹیننس ایریاز کا معائنہ کرتی ہیں تاکہ مسافروں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔

ندا صالح کی یہ کامیابی نہ صرف خواتین کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے بلکہ پاکستان میں خواتین کو ٹیکنیکل اور غیر روایتی شعبوں میں بڑھانے کی حکومت اور سماجی تنظیموں کی کوششوں کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ندا کی اس کامیابی سے اور زیادہ خواتین اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے حوصلہ پائیں گی۔

Shares: