عام انتخابات سے قبل نگران حکومت کا قیام ایک قانونی تقاضا ہوتا ہے جس کا اہم مقصد ملک میں انتخابی عمل کو صاف اور شفاف انداز میں یقینی بنانا ہوتا ہے اس لیے اس کا باقاعدہ حلف اٹھایا جاتا ہے۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے یہ آٹھویں نگران حکومت ہے ۔نگران حکومت کاایک مقصد شفاف شفاف انتخابات کا انعقاد کروانا ہوتا ہے تاہم بدقسمتی کی بات ہے کہ جب بھی نگران حکومت کی نگرانی میں انتخابات ہوئے اپوزیشن نے کبھی بھی ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ دھاندلی کا شور ہی مچا ہے ۔ نگران حکومت کی دیگر ذمہ داریاں منتخب حکومت کے قیام تک آئین اور قانون کے تحت مملکت کا انتظام چلانا ہوتا ہے تاکہ نہ صرف یہ کہ جاری ترقیاتی منصوبے وقت مقررہ پر پایا تکمیل تک پہنچ جائیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔
جہاں تک نگران حکومت کو درپیش اجتماعی مسائل کا تعلق ہے ان میں امن و امان ، مہنگائی اور بے روزگاری ایسے مسائل سر فہرست ہیں ان مسائل سے نمٹنا بے حد توجہ طلب ہے۔ انتخابات وقت پر کروانے کے بعد دوسری اہم ذمہ داری عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ کم کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس لیے کہ عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہی ہے بلکہ اب تو صورت حال یہ ہے کہ عوام کے لیے جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے ۔ اس تناظر میں نگران حکومت کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو نہ صرف عوام کے مفاد میں ہوں بلکہ آنے والے حکومت کے لیے بھی قابل تقلید ہوں ۔
اس بات میں کوئی دو آرا ء نہیں کہ اس وقت قوم کا بچہ بچہ اندرونی اور بیرونی سودی قرضوں کے لیے جال میں بری طرح جکڑا ہوا ہے سودی معیشت جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے کھلی جنگ اور بغاوت کے مترادف ہے اس جنگ اور بغاوت نے ہمارا معاشی ، معاشرتی اور قومی حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔حالانکہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا ضروری تھا کہ پاکستان میں سودی نظام کا خاتمہ کرکے اسلامی طرز معاشرت قائم کیا جاتا لیکن یہاں دن بہ دن سودی نظام مضبوط ہورہا ہے ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت عالمی مالیاتی اداروں کے شکجنے اور پنجے میں بری طرح جکڑی جاچکی ہے ۔ ہماری حکمرانوں کی بے حسی کی یہ حالت ہے کہ آئی ایم ایف سے جب بھی بھیک ملتی ہے تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے بھنگڑے ڈالتے اور خوشیاں مناتے ہیں مگر یہ کسی کو بھی احساس نہیں کہ عوام کا دیوالیہ ہو چکا ہے اور مہنگائی کی شرح تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60ہزار روپے تنخواہ لینے والا شخص خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ حکمران ان حالات پہ اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ انہیں معاشی مسائل درپیش نہیں ہیں انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو تو پتہ چلے کہ عوام مالی طور پر حالات کے پل صراط سے کس طرح گزر رہے ہیں۔ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے گھرانے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے قابل ہیں نہ صحت کی سہولتیں فراہم کر سکتے ہیں۔ نگران ارباب اختیار کو چاہیے کہ وقت ضائع کیے بغیر ان گھمبیر اور سنگین مسائل پر توجہ دیں تاکہ ملک میں بھوک اور افلاس کے باعث خودکشیوں کا رجحان دم توڑ سکے۔اس وقت یہ بات زبان زد عام ہے کہ لوگ مالی مشکلات کے باعث عفت و عصمت ایسے گوہر کو لٹانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے ہماری درج ذیل گزارشات ہیں کہ وہ :
اپنی کابینہ مختصر رکھیں ، اپنا اور اپنے وزرا کا شاہانہ پروٹوکول ختم کریں ، کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کریں، وفاق اور صوبوں میں ایسی تبدیلیاں لائیں جن سے اشرافیہ کو حاصل مراعات میں کمی ہو، لاکھوں سرکاری گاڑیوں کو روزانہ ہزاروں لیٹر ملنے والا مہنگا پٹرول بند کیا جائے ، خاص طور پر ججوں جرنیلوں اور بیوروکریٹ کو حاصل لامحدود مراعات واپس لی جائیں۔
دکھ کی بات ہے کہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست میں دولت کی تقسیم کا کوئی قابل قبول فارمولا ہی نافذ نہیں تمام مراعات کا رخ طبقہ اشرافیہ اور ان کے اللوں تللوں کی طرف ہے اور غریب لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ دوسری طرف نگران وزیر اعظم نے سابق حکومت کی مالیاتی پالیسیوں کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا ہے حالانکہ سابق حکومت نے ملک کا اور غریب آدمی کا معاشی طور پر تیاپانچہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ سابق حکمرانوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا تھا کہ چار پانچ افراد پر مشتمل گھرانوں کے وہ کفیل جن کی ماہانہ آمدنی 25 سے 30 ہزار روپے تک ہے وہ کن بدترین حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ بجلی کے بلوں نے عام آدمی کو خون کے آنسو رولا دیا ہے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتاتھا کہ جب بجلی کے نرخوں میں نت نئے ٹیکس کا اضافہ نہ کیا جاتا ہویا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جاتا ہو ۔اب نگران حکومت نے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کرکے ثابت کردیا ہے کہ یہ غریب آدمی کو کچلنے اور مہنگائی کرنے میں سابقہ حکومت کے راستے پر ہی چل رہی ہے ۔حکومت بجلی چوری پر ہی قابو پا لیتی تو بجلی کے بل کم ہو سکتے تھے بجلی کے بلوں میں اضافہ ایسا مسئلہ ہے جو ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہیے یہ بات ارباب اختیار کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے بجلی ، سوئی گیس اور پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر ضروریات زندگی کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافوں کے باعث اگر عوام سڑکوں پر آگئی تو حالات کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا قبل اس کے کہ ایسا وقت آئے عوام کی مشکلات کا مداوا ہونا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یا تو مہنگائی پہ کنٹرول کیا جائے یا آمدنی میں اضافہ یقینی بنایا جائے۔نگران حکومت کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ ایک تو سرکاری اور پرائیویٹ محکموں میں روزانہ اجرت یا کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو 32 ہزار روپے کی ادائیگی ہو یا دوسرا یہ کہ جس طرح مستقل ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اسی طرح غیر مستقل ملازمین کو بھی آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی سے نمٹنے کے لیے معقول تنخواہ دی جائے ۔ معاشی ماہرین کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے ارباب اختیار کو مشورہ دیں تاکہ وہ غیر مستقل ملازمین کا بھی خیال رکھیں کیونکہ ضرورتیں تو سبھی لوگوں کی ایک جیسی ہوتی ہیں کسی کی آمدنی کم ہو یا زیادہ مہنگائی کا بوجھ سب پر ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ خوشحال لوگ تو آج بھی مہنگائی کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتے مگر غریب آدمی تو ذہنی توازن تک کھوتاجا رہا ہے کہ وہ خود کیا کھائے اور بچوں کو کیا کھلائے۔ ان مسائل پر خلوص نیت سے توجہ نہ دی گئی تو مستقبل قریب میں حالات پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا ۔