(تجزیہ شہزاد قریشی)
ایک ایسے وقت میں جب عوام کا ایک بڑا حصہ ناقابل تصور مہنگائی کا سامنا کررہاہے ۔ ملک کی سڑکوں پرمفت آٹا لینے کے لئے بزرگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ وطن عزیز کے شہریوں کو پولیس اٹھا کر جیلوں میں بند کر رہی ہے ۔ شہریوں کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو ، ہیں تو وہ پاکستانی شہری ، ان کا قصور یہ ہے کہ یہ ان سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جن کے ووٹوں سے اقتدار اور اختیارات سیاستدانوں کو ملتے ہیں۔ دنیا کی شاید واحد قوم ہے جن کی ووٹوں سے اقتدار حاصل کرنے والے سیاستدان ان کے بنیادی مسائل حل کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان دلخراش حالات میں وزیر داخلہ نے پنجابی فلموں والا ڈائیلاگ بول کر ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کردیا۔ کیا سیاسی گلیاروں میں پُتر شاہیا دا اور جگا ڈاکو فلموں والے ڈائیلاگ بولے جائیں گے؟ وزیر داخلہ کے بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) ذاتی دشمن بن گئے ہیں۔ کچھ اسی قسم کا رویہ عمران خان کا رہا ماضی میں وہ بھی پنجابی فلموں کے ڈائیلاگ کا سہارا لیتے رہے۔ آج کے سیاستدانوں پر حیرت ہے کہ سیاست کو ذاتی دشمنی میں بدل دیا۔ وطن عزیز میں جمہوریت مستحکم نہیں جمہوریت پر سوالیہ نشان بھی ہے اور زوال بھی ہے ۔ آئین اورقانون کی حکمرانی کا زوال ۔ ملکی سلامتی کے اداروں کو کمزور کرنا ، اعلیٰ عدلیہ پر روز مرہ کے حملے ۔ سول انتظامیہ اورپولیس کا غلط استعمال جمہوری ڈھانچے کے منہدم ہونے کے واضع اشارے ہیں۔

ذرا سوچئے اس وقت عالمی سطح پر وطن عزیز کا جو نقشہ پیش کیا جارہا ہے۔ دنیا میں پاکستان بطور ریاست کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کیا عالمی دنیا کے لیڈران آج کے پاکستان میں جاری جمہوریت پریقین کرلیں کہ ملک میں جمہوریت ہے۔ کیا شہباز شریف ، عمران خان اورپی ڈی ایم میں شامل جماعتیں عالمی دنیا میں پاکستان کے وقار اور عزت میں اضافہ کررہی ہیں؟ جن حالات میں اس وقت وطن عزیز گزر رہا ہے اور عوام ،سیاسی گلیاروں میں لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ ملکی سرحدیں پاک فوج نے مضبوط کردی ہیں ۔ ہمارے جوان وطن عزیز کو مستحکم کرنے کے لیے شہادتیں دے رہے ہیں تاہم ایک جمہوری حکومت کے لئے ایک ہوشیار ذہین اور چالاک حکمران کی ضرورت ہے جو ملک کے مسائل حل کرسکے۔

Shares: