نظام عدل تحریر : شاہ زیب

0
31

دنیا کے نظام عدل کی بات کی جائے تو وطن عزیز کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اعلی عدلیہ کے لیے شرمندگی کا مقام ہے جہاں دنیا کی ایک سو اٹھائیس ممالک کی فہرست سے پاکستان ایک سو بیسویں نمبر آتا ہے۔

اور جب دنیا کی قانون سازی یا عدلیہ کی بات کی جائے تو اس جدید صدی میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی و علوم کی تیز ترین دور میں بھی دنیا کے حکمران ہمارے خلیفہ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے قوانین ” عمر لا ” کے نام سے رائج اور نافذ ہیں۔

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی دنیا امیرالمومنین و خلیفہ کے قانون کے مطابق ہی انصاف کرتی ہے میرا مقصد یہ ہے جب یہودی غیر مسلم ممالک ہمارے خلیفہ کے بنائے گئے قوانین کی پاسداری اور پیروی کرتے ہیں تو وطن عزیز جو بنا ہی اسلام کے نام پر ہیں تو ہمارے ملک میں کیوں انصاف کا قتل عام کیا جاتا ھے

ہمیں تو دنیا کے اس نظام عدل میں ٹاپ لسٹ ہونا چاہیے تھا کیونکہ دنیا میں کہیں بھی انصاف کے مصنف ہمارے خلیفہ کے پیروری کرتے ہیں اور ہمارے اعلی عدلیہ کے مصنف طاقت وار اور مالدار حضرات کی پیروری کرتے ہیں جس کی بدولت بحیثیت پاکستانی میں ہمیں شرمندہ ہونا پڑ رہا ہے

شرمندہ ہونا ناکافی نہیں یہ تو ہو گئی ہماری بنیاد جس وجہ سے ہم 128 ممالک کی فہرست میں سے 120 نمبر پر ہیں اب آگے بڑھتے ہیں جس سے معاشرے میں جرائم کی شرح میں تیزی اضافہ ہو رہا ہے وطن کو درپیش چیلنجز میں سے سب سے خطرناک جو فحاشی اور جنسی زیادتی کے جرائم میں اضافہ لا قانونیت کے اسباب ہیں۔

جرائم کی روک تھام کے لئے حکومت وقت اور عدلیہ کے مصنفین کو اس پر سوچنا چاہیے یہاں کمی نہیں کسی چیز کی شاعر مشرق علامہ اقبال کا قول ہے

” نہیں ھے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ”

وطن عزیز میں سب کچھ میسر ہے نہیں ہے تو نظام اس کے لئے قانون ساز اسمبلیوں سے سخت قوانین پاس کروائیے جائے اور نیکسٹ سال جب عالمی درجہ بندی اناؤنس کی جائے تو نظام عدل کے ایوانوں میں بیٹھے مصنفین سے رپورٹ طلب کی جائے۔ شکریہ

‎@shahzeb___

Leave a reply