بھارت کے مختلف سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں اس وقت سب سے زیادہ وسائل کوروناوائرس سے نپٹنے میں لگے ہیں۔جب کہ اکثر جگہوں پر او پی ڈی اور سنگین بیماریوں سے متعلق محکمے بند ہیں اور ایمرجنسی میں عام مریضوں کو دیکھنے کے لئے ڈاکٹر ہی موجودنہیں ہیں۔ اس کے علاوہ لاک ڈاون کی وجہ سے مریضوں کو ہسپتال پہنچنے میں بھی کافی دشواریوں کا سامنا ہے. ان حالات میں دیگر سنگین بیماریوں میں مبتلا مریض اور ان کے اہل خانہ کے لیے مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔اگر ایمرجنسی میں کوئی کورونا سے ہٹ کر کوئی مریض آجائے اور اس کی مناسب دیکھ بھال نہ کرنے کی وجہ سے موت واقع ہو جائے تو اسے بھی کورونا کا مریض قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کی موت کی وجہ بھی کورونا ہی بتائی جارہی ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں باغی ٹی وی نے معروف خاتون صحافی میناکشی تیواری کی وساطت سے شہر کے مختلف ہسپتالوں میں ایک سروے کیا تو مریضوں نے شکائتوں کے انبار لگا دئیے۔ ایک شخص جو انتہائی افسردہ حالت میں بیٹھا تھا جب اس سے اس کی افسردگی کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے بتایا کہ اس کی ماں کو کینسر تھا لیکن اس کا مناسب علاج نہ ہوسکنے کے باعث اس کا انتقال ہو گیا ہے لیکن اب ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ اس کی موت کو رونا کی وجہ سے ہوئی حالانکہ وہ کو رونا پازیٹو نہیں تھیں۔دس مہینے پہلے جب ماں کی بیماری (ملٹی پل مائیلوما)کا پتہ چلا تبھی ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ یہ بیماری لاعلاج ہے اور جسم کے مختلف حصوں، بالخصوص کڈنی اور ہڈیوں پر اثر کرتی ہے اس لیے خصوصی مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔اس شخص کا کہنا تھا کہ اس کی ماں بنارس ہندو یونیورسٹی کی سابق پروفیسر ڈاکٹر سواتی کا 2 مئی کی شام انتقال ہو گیا تھا اس کی بیماری بھی مس مینج کی گئی…میری ماں اکیلی نہیں ہے۔ نہ جانے کتنی بیماریوں کے کتنے مریض روزانہ علاج نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں جارہے ہیں۔بھارت بھر کے مختلف سرکاری اور نجی ہاسپٹل میں زیادہ تر وسا ئل کووڈ 19 سے نپٹنے میں لگے ہیں۔ کئی جگہوں پر او پی ڈی اور سنگین بیماریوں سے متعلق محکمے بند ہیں اور ایمرجنسی میں خاطر خواہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اکثر نجی ہاسپٹل اور کلنک بند ہیں، جس کی وجہ سے ان بیماریوں سے مریضوں کی مشکلیں اور ان کے اہل خانہ کی پریشانیاں دوگنی ہو گئی ہیں۔بالخصوص کینسر، دل کے مریض اورمستقل ڈائلیسس لینے والے مریضوں کی حالت کافی خراب ہے۔ممبئی کے بھنڈی بازار علاقے کی رہنے والی سید عرشی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ بھی نئی دہلی کے ایک ہسپتال میں داخل ہوئی 40 سالہ عرشی دل کی مریض تھیں، لیکن 22 اپریل کو ان کی موت برین ہیمریج سے ہوئی۔ان کے چھوٹے بھائی سعید اعجاز نے بتایاکہ جس دن ان کی موت ہوئی انہیں بیحد کمزوری تھی۔ دھڑکن بہت تیز ہو رہی تھی اور وہ بول نہیں پا رہی تھیں۔ میں فوراً انہیں لیکر مقامی پرائیویٹ ہاسپٹل پہنچا، لیکن وہاں گارڈ نے بتایا کہ ہاسپٹل بند ہے۔ ہم ایک دوسرے ہاسپٹل گئے لیکن وہاں صرف کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے، جب ڈاکٹر نے وہاں داخل کرنے سے منع کیا تب ہم انہیں سرکاری ہاسپٹل لیکر پہنچے جہاں پہنچنے کے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی عرشی نے دم توڑ دیا۔ ان کے مطابق اس ہاسپٹل میں بیحد خراب انتظامات تھے۔جب ہم یہاں پہنچے تو صرف ایک ہی ڈاکٹر تھے۔ ہم خود عرشی کو اسٹریچر پر ڈال کرایمرجنسی وارڈمیں لیکر گئے۔ آدھے گھنٹے تک یہاں انہیں کسی نے نہیں دیکھا، پھر بہت منت سماجت کے بعد ایک ٹرینی ڈاکٹر نے انہیں ایک انجکشن دیا۔کچھ دیر بعد آئے ڈاکٹر نے سٹی اسکین کروانے کو کہا، لیکن دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب عرشی کی سانسیں تھم گئیں۔عرشی کے اہل خانہ کا کہناہے کہ انہیں صحیح وقت پر علاج نہ ملنے کی وجہ سے بچایا نہیں جا سکا۔اعجاز نے بتایا ایمرجنسی وارڈ میں کئی مریض علاج کے انتظار میں پڑے تھے۔ نرسیں لوگوں پر چلا رہی تھیں۔ہم لوگ تین چار گھنٹے وہاں رہے اس دوران ایمرجنسی میں تقریباً 15 اموات ہوئی تھیں۔اتر پردیش کے شہر الہ آباد کی 15 سال کی نائلہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مدھیہ پردیش کے اندور میں پڑھنے والی نائلہ کو جنوری سے بخار اور کھانسی کی شکایت تھی۔ گھر کے پاس ایک مقامی ڈاکٹر کو دکھایا گیا، جس کی دوا سے فوری طور پر آرام تو ملا، لیکن بخارکھانسی کم نہیں ہوئی۔اس دوران ڈاکٹر نے خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کے لیے کہالیکن اس وقت تک لاک ڈاؤن کااعلان ہو چکا تھا۔ بڑی مشکل سے ٹیسٹ اور ایکسرے کروائے تو معلوم ہوا کہ انہیں ٹی بی ہے اور جلد سے جلد ٹریٹمنٹ شروع کروانے کی ضرورت ہے۔شہر کے تمام ہاسپٹل میں او پی ڈی بند ہیں اور نجی ڈاکٹر اپنے کلینک نہیں کھول رہے۔ ایسے میں مقامی ڈاکٹر اپنے ایک جاننے والے ڈاکٹر کی صلاح سے انہیں ٹی بی کی دوائیاں دے رہے ہیں۔یہ صرف ایک مثال ہے، لیکن اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران ٹی بی کے معاملے سامنے آنے کی تعداد میں بڑی حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 14 سے 29 فروری کے دوران ٹی بی کے 114460 معاملے سامنے آئے تھے، لیکن یکم سے 14 اپریل کے دوران یہ تعداد کم ہو کر صرف 19145 ہو گئی۔ پہلے مرحلہ کے لاک ڈاؤن کے 21 دنوں میں ٹی بی کے کل 34566 کیسز سامنے آئے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ بھارت میں ٹی بی سے ہرروز ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ متا ثرہ آٹھ ممالک میں بھارت کا شمار ہوتا ہے جب کہ دنیاکے ٹی بی مریضوں کی کل تعداد کے 27 فیصد مریض بھارت میں ہی ہیں۔ 2018 میں دنیا بھر میں ٹی بی سے لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے جان گنوائی تھی، جس میں 29 فیصد (تقریباً 4.4 لاکھ) مریض بھارت کے تھے۔مارچ 2018 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے2025 تک ملک سے ٹی بی کو ختم کرنے کی بات کہی تھی لیکن کووڈ بحران کے باعث یہ مہم بھی ٹھپ پڑی ہیں۔ایمس دہلی کے ریزیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ہرجیت سنگھ بھٹی کہتے ہیں اس وقت اگر ملک میں سب سے زیادہ پریشانی میں کوئی ہے تو وہ نان کووڈ مریض ہیں، جو پرانی اور سنگین بیماری سے لڑ رہے ہیں۔ایک سرکاری ہسپتال میں موجود جئے پور میں رہنے والی 50 سالہ سنیتا کا گلے کے کینسر کا2005میں آپریشن ہوا تھا گزشتہ نومبر میں اچانک گلے میں اچانک تکلیف کے بعد پتہ چلا کہ کینسردوبارہ جڑ پکڑ رہا ہے۔دسمبر میں دہلی کے علاقے شالیمار باغ کے ایک نجی ہاسپٹل میں ان کا دوبارہ آپریشن کیا گیا اور وہ ٹریٹمنٹ اب تک جاری ہے۔ ان کے گلے میں نالی لگی ہوئی ہے اورریگولر چیک اپ کروانا ہوتا ہے۔ لاک ڈاؤن کی حالت میں ان کے ڈاکٹر ویڈیو کال کے ذریعے انہیں دوائیاں بتا رہے ہیں۔ اتر پردیش کے رہنے والے تسلیم کئی سالوں سے مغربی دہلی کے وکاس نگر میں رہتے ہیں اور ایک ٹھیکیدار کے یہاں یومیہ بڑھئی کا کام کرتے ہیں۔ان کی بیوی شاہین (45) کو دو سال پہلے بریسٹ کینسر کا پتہ چلا تھا اور گزشتہ دسمبر میں ان کا دہلی کے ایمس ہسپتال میں ان کا آپریشن ہوا ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کو دوائیں ریگولرکھانی ہوں گی۔تسلیم کی کمزور اقتصادی صورتحال دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے پٹپڑگنج کے ایک این جی او کے بارے میں بتایا، جو مفت میں یہ دوائی مہیا کرواتے ہیں، لیکن کچھ مہینوں سے وہاں یہ دوائی ملنی بند ہو گئی ہے۔تسلیم کا کہنا ہے کہ میں 500 روپے یومیہ کمانے والا آدمی ہوں، اتنی مہنگی دوا کہاں سے لاؤں گا؟ 7300 روپے میں ایک ہفتے کی دوا آتی ہے۔ جب پٹپڑگنج میں دوا ملنی بند ہوئی تو پھر کچھ رشتہ داروں سے پیسے لیکر دوا لی، لیکن کچھ دنوں میں انہوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔اب لاک ڈاؤن کے دوران دو مہینے سے ان کی بیوی کو دوا نہیں ملی، تو حالت اور خراب ہونے لگی اب تو نہ کمائی ہے نہ دوائی اور نہ ہی سرکاری ہسپتال میں علاج ہو رہا ہے۔ دہلی کے شاستری پارک کے رہنے والے محمد یونس کی کہانی ایسی ہی ہے۔نومبر 2019 میں دانت کے درد کی دوا لینے پہنچے 40 سالہ یونس کو کچھ جانچ کے بعد انہیں اورل کینسر ہونے کا علم یہ دوسری اسٹیج پر تھا جس کا علاج آپریشن تھا۔ اہل خانہ نے جیسے تیسے روپیوں کا انتظام کیا اور شالیمار باغ کے ایک نجی ہاسپٹل میں دسمبر میں ان کا آپریشن کیا گیا۔اس کے بعد 40 دنوں کے اندر انہیں کیموتھیراپی اور ریڈی ایشن تھیراپی شروع کروانے کو کہا گیا لیکن نجی ہاسپٹل کا خرچ برداشت نہ کر پانے کی وجہ سے اہل خانہ انہیں لے کرسرکاری ہاسپٹل گئے، جہاں سے انہیں دہلی اسٹیٹ کینسر انسٹی ٹیوٹ دلشاد گارڈن بھیجا گیا وہاں ان کی کیمو ہونی تھی۔31 مارچ کویہاں کے ایک ڈاکٹر کو کووڈ پازیٹو پایا گیا، جس کے بعد اپریل کے پہلے ہفتے تک انسٹی ٹیوٹ کے 26 اسٹاف، 4 مریض اور ایک مریض کے اہل خانہ کے کو رونا پازیٹو ملنے کے بعد اس کو بند کر دیا گیا۔ اب ان کی کیمو کب ہوگی کوئی علم نہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں اس وجہ سے یونس ایسے حال میں نہ پہنچ جائے جہاں سے انہیں واپس لانا ممکن نہ ہو سکے۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں دہلی کی 45 سال کی کنچن دیوی کووقت پر ڈائلیسس نہ ملنے سے ان کی جان چلی گئی۔ گزشتہ ڈھائی سالوں سے وہ مشرقی دہلی کے ایک ہاسپٹل میں باقاعدگی کے ساتھ ڈائلیسس کروا رہی تھیں، لیکن اس بار ہاسپٹل میں کووڈ انفیکشن ملنے کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔ان کے بیٹے نے بتایا کہ انہوں نے تین نجی اور ایک سرکاری ہاسپٹل میں فون کیا لیکن سبھی نے انہیں داخل کرنے سے منع کر دیا۔ ان کی لگاتار بگڑتی حالت کو دیکھ کر اہل خانہ ایک نجی ہاسپٹل کے ایمرجنسی محکمے میں پہنچے، جہاں جب تک ڈائلیسس دیا گیا، بہت دیر ہو چکی تھی۔ وزیرآباد کے سلمان کی ماں شاہدہ (50) کا علاج بھی اسی ہاسپٹل میں چل رہا تھا۔ انہیں شوگراور دل کی بیماری ہے اورریگولر ڈائلیسس کروانا ہوتا ہے۔کتابوں پر جلد چڑھانے کا کام کرنے والے سلمان نے ای ڈبلیو ایس کارڈ بنوایا ہوا تھا جس کی مدد سے مفت علاج مل جاتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ جب سے ہاسپٹل بند ہوا، شہر کے ہر کونے کے ہاسپٹل میں بھٹکنے کے بعد شاہین باغ میں واقع ایک کلینک ڈائلیسس کرنے کے لئے تیار ہوا جہاں ہر سیشن کے لیے تقریباً ڈھائی ہزار روپے فیس دینی پڑرہی ہے۔لیکن دو مہینے سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام بند ہے، دوستوں رشتہ داروں سے پیسے لیکر جیسے تیسے ماں کا علاج کروا رہا ہوں۔ حالانکہ ہاسپٹل کو مرکزی وزارت داخلہ اور دہلی سرکار کی جانب سے باربارسنگین بیماریوں سے متاثر مریضوں کوداخل کرنے اور صحیح علاج فراہم کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں لیکن لاک ڈاؤن کے دوران صحیح وقت پر ہاسپٹل تک پہنچنا ایک بڑا چیلنج ہے۔دہلی کے ایمس سے ڈسچارج ہوئے کئی مریض اور ان کے ساتھ آئے اہل خانہ لاک ڈاؤن کے دوران ہاسپٹل کے پاس بنے سب وے میں رہ رہے ہیں۔ایسے بھی معاملے سامنے آئے ہیں، جہاں کسی دوسری بیماری کے علاج کے لیے ہاسپٹل جا رہے مریض کو کو رونا کا انفیکشن ہوا، جو آخر میں جان لیوا ثابت ہوا۔دہلی کے جامعہ نگر کی رفعت کی ایک خاتون رشتہ دارشوگر اور لیور کی بیماری سے جوجھ رہی تھیں، جس کا علاج ایمس میں چل رہا تھا۔ ڈاکٹر نے ایک انجکشن بتایا جسے ریگولر لگوانا ہوتا تھا۔لاک ڈاؤن ہو جانے کے بعد وہ گھر کے پاس کے ایک کلینک میں ہر دوسرے دن یہ انجکشن لگوانے جا رہی تھیں، جب ایک دن انہیں سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی معلوم ہوا کہ انہیں یہ انفیکشن اسی کلینک سے ہوا ہے، جہاں وہ انجکشن لگوانے جاتی تھیں۔ اہل خانہ نے کووڈ 19 کا ٹیسٹ کروایا جو پازیٹو نکلا۔رفعت بتاتی ہیں کہ پریشانی یہیں سے شروع ہوئی۔ بد انتظامیوں کی صورتحال یہ تھی کہ پازیٹو پائے جانے کے 24 گھنٹے بعد ایمبولینس رات کے ڈیڑھ بجے لینے آئی اور ایک سرکاری ہاسپٹل لے گئی۔ یہاں کہا گیا کہ بیڈ نہیں ہے اور انہیں صبح سویرے واپس گھر بھیج دیا گیا۔اس کے بعد کچھ لوگ گھر آئے اور انہیں راجیو گاندھی ہاسپٹل لے جایا گیا، جہاں انہیں آئسولیشن وارڈ میں رکھا گیا۔ رفعت کے مطابق، اس وارڈ میں باہر سے تالا لگا دیا گیا تھا اور اگلے تین دنوں تک کوئی ڈاکٹر دیکھنے نہیں آیا۔اس دوران اہل خانہ نجی ہاسپٹل میں بھی رابطہ کر رہے تھے اور ایک دن بیڈ دستیاب ہو جانے پر انہیں ساکیت کے میکس ہاسپٹل میں لے جایا گیا۔ یہاں آنے تک ان کی طبیعت کافی بگڑ چکی تھی، کئی عضو متاثر تھے۔ انہیں وینٹی لیٹر پر بھی رکھا گیا، لیکن آخر میں انہیں بچایا نہیں جا سکا۔رفعت کہتی ہیں،‘پرائیویٹ ہاسپٹل میں دن کی 50 ہزار روپے فیس تھی، مڈل کلاس لوگ ہیں، کہاں سے اتنا پیسہ لائیں گے، یہی دیکھ کر سرکاری ہاسپٹل میں جانے کا سوچا، لیکن اگر پہلے ہی انہیں پرائیویٹ میں لے جاتے تو شاید جان بچ جاتی۔’ڈاکٹر بھٹی کہتے ہیں کہ ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی آنی تو تھی سرکار اور سسٹم کے اوپر، لیکن یہ آ گئی ہے غیرکووڈ مریضوں کے اوپر، جو اب اس سے اکیلے لڑ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کی ہم ملک کے مزدوروں کی پریشانی کو تو دیکھ پائے ہیں کیونکہ وہ اکٹھے ہوکرسامنے آئے ہیں لیکن نان کووڈ مریض کہیں اکٹھے ہوکر سامنے نہیں آئے ہیں اس لیے ان کا درد ہمیں پتہ نہیں چل رہا ہے۔

Shares: