نور کیس، سماج کیلئے تازیانہ . تحریر: سید غازی علی زیدی

امیر زادہ و اعلیٰ تعلیم یافتہ، جوان اور خوبصورت، مال و دولت کی ریل پیل، نوکروں کی فوج ظفر موج، امریکی شہریت کا حامل، پارٹی کلچر کا دلدادہ، مادر پدر آزادی کا قائل، 
  ظاہر جعفر

لیکن اب بس ایک سفاک قاتل
کیونکہ ایک لڑکی نے شادی سے انکار کردیا!!!
تو لڑکی کی یہ اوقات؟ 

کیا ہوا اگر وہ بھی امیر تھی، بچپن کی دوست تھی، اس کا باپ  حکومتی اعلی ترین عہدوں پر فائز رہا تھا۔ تھی تو وہ ایک لڑکی۔

 مردانگی کیخلاف یہ انکار کیسے برداشت کر لیتا؟؟؟

 گو کہ وہ اس طبقے سے تعلق رکھتا جہاں صنفی امتیاز کی بجائے صرف مساوات کا دلفریب تصور دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا۔ لیکن فطرت کون بدل سکتا؟ ایلیٹ کلاس کی نفسیاتی معالج ماں کا لاڈلا سپوت، جو خود بھی ایلیٹ تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مشاورت کیلئے بطور بہترین استاد مشہور تھا۔ بظاہر مہذب اور عمدہ اخلاق کا حامل، لیکن درحقیقت سفاک اور جنونی، بظاہر عورتوں کی مادر پدر آزادی کا علمبردار لیکن عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والا۔ جس کی پر تشدد حرکتوں سے نہ تو خود اسکی اپنی ماں محفوظ تھی نہ کوئی یورپین کال گرل۔ امریکہ و یورپ نے تو ڈیپورٹ کر کے پابندی لگا دی لیکن پاکستان میں دولت کے بل پر حقائق چھپانا کیا مشکل؟ جبکہ آپ کے والدین نہ صرف امیر ہوں بلکہ جاہ و حشمت والے بھی۔ جب دولت اور افسر شاہی آپ کے گھر کی باندی ہوں تو کیسا خوف، کیسی اخلاقیات۔ اور رہا خوف خدا تو خدا کو تو آپ مانتے ہی نا ہوں۔ خدا کو غیر ضروری قرار دے کر جب آپ زندگی سے نکالتے ہیں تو ساتھ ہی ایمان کا نور اور دل کا سکون بھی چھن جاتا لیکن الحادیت کے علمبرداروں کو یہ بات کون سمجھا سکتا جب خود خدا ہی ان سے منہ موڑ چکا ہو۔

نشے کا عادی، شراب و کباب کا دلدادہ، اذیت پسند، ملحد، غرض کونسی  بد خصلت تھی جو اس میں نہیں تھی۔بدقسمتی سے نور اسکی پرتشدد طبیعت اور سیاہ ترین فطرت کے کچھ پہلوؤں سے واقفیت حاصل کرچکی تھی۔سو پوری منصوبہ بندی سے اس کے گرد ایک شیطانی جال بنا گیا۔ بچپن کی دوستی اور پرانی محبت کا واسطہ دے کر کچھ دن آخری بار ساتھ گزارنے پر مجبور کیا گیا اور یہ بات تو طے ہے کہ لڑکی چاہے امیر زادی ہو یا فقیرنی، مردوں کے جھانسے میں آ ہی جاتی ہے۔ ساری عقلمندی، تعلیم، خاندانی رواج سب طاق میں پڑے رہ جاتے جب لڑکی اپنی حدود پار کر لیتی پھر چاہے وہ روایتی مشرقی عورت ہو یا مادر پدر آزادی کی حامی۔ سو قارئین کرام اسکے بعد شروع ہوتی ہے سفاکیت اور بربریت کی وہ کہانی جس کا ہرروز ایک نیا دلخراش پہلو منظر عام پر آ رہا ہے۔ وہ دلدوز تفاصیل جس نے سارے لبرل ازم اور جدیدیت کا حسین مگر کھوکھلا بت پاش پاش کر دیا ہے۔

ایک نہتی لڑکی جو اندھی محبت کے نشے میں چور تھی اسکو وحشیانہ انداز میں مارمار کر سارا نشہ اتار دیا۔ حبس بیجا میں رکھ کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ بھاگنے کی ناکام کوشش پر سر کے بالوں سے گھسیٹا اور بدترین سفاکیت کا مظاہرہ کرتے چھریوں کے وار کرکے مار دیا اور جب شقی القلب انسان کی اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو سر ہی قلم کر کے لاش سے4 فٹ کے فاصلے پر رکھ دیا۔ خدا کی پناہ اس واردات کا تصور ہی عام انسان کے رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کافی ہے۔ لیکن یہ سب کرتے نہ قاتل کو کوئی جھرجھری آئی نہ رحم کی کوئی رمق اس کے دل میں جاگی۔ گھر کے ملازم گونگے بہرے بنے سب دیکھتے رہے لیکن کوئی انسانیت کسی میں بیدار نہ ہوئی۔  ستم بالائے ستم یہ کہ وہ ماں باپ جن کی آنکھوں کے سامنے نور پلی بڑھی تھی وہ ایک ایک لمحے کی کاروائی سے واقف تھے لیکن بجائے بیٹے کو روکنے کے الٹا ملازمین کو ہدایات جاری کرتے رہے۔ یہاں تک کہ نور کے والد کے سامنے نور کی گمشدگی پر سختی سے لاعلمی کا اظہار بھی کیا۔ شور سن کر راہ چلتے کسی بھلا مانس کے فون کرنے پر جب پولیس پہنچی تو طاقت کے نشے میں چور قاتل کے ماں باپ پولیس کو بھی دھمکاتے اور معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کرتے۔ کیونکہ کچھ دیر بعد قاتل کی بیرون ملک روانگی طے تھی۔

انسانیت، اعتبار، تعلق داری، اخلاقیات، رواداری۔۔۔ غرض ہر چیز کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں اس اندوہناک واقعے نے۔ شاید اگر نور کے والد بارسوخ نہ ہوتے تو کبھی قاتل نہ پکڑا جاتا۔ اگر نور کا تعلق کسی عام گھرانے سے ہوتا تو کیا کبھی بھی یہ تفصیلات سامنے آنی تھیں؟

اس سانحہ میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔ اس بہیمانہ قتل نے ہمارے معاشرے کے کئی تاریک ترین پہلوؤں کو بری طرح سے آشکار کر دیا ہے۔ پہلی دفعہ جدیدیت اور لبرل ازم کی ہولناکیاں اس شدت سے سامنے آئی ہیں کہ انہوں نے مادر پدر آزادی کی طرف تیزی سے گامزن معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ہر معاشرتی برائی کا الزام مذہبی انتہا پسندی کے سر ڈال کرلبرل ازم اور جدیدیت کا راگ الاپنے والوں کی زبانیں اب کنگ ہیں.

آج تک مادر پدر آزادی اور عورت مارچ کے حق میں نعرے لگانے والوں نے عورتوں پر ظلم وتشدد کے تمام واقعات کی جڑ پدرسری معاشرے، مذہبی روایات اور قدامت پرست طبقے کو قرار دیا ہے۔ وہ اب بت بنے بیٹھے ہیں۔ عورت مارچ کے نام پر طوفان بے حیائی مچانے والوں کو سانپ سونگھ چکا ہے۔

 اگر پاکستان کے امیر ترین طبقہ کا نوجوان، ماڈرن ازم کا پروردہ، فارن کوالیفائڈ ملحد ہونے کے باوجود اتنی سفاکیت سے جان لے سکتا تو باقی کیا بچتا؟ الحادیت کی تو بنیاد ہی یہ کہ کوئی خالق حقیقی نہیں کوئی آسمانی مذہب نہیں بلکہ انسانیت ہی اصل مذہب ہے۔ پھر اب وہ انسانیت کہاں گئی؟

امیر کبیر ماں باپ کے بچے شرابی، نشئی، زانی، ملحد بنے لوگوں کی زندگیاں اجاڑ رہے اور ماں باپ ماڈرن بننے کے چکر میں جان بوجھ کر انجان بنے بیٹھے۔ بلکہ الٹا اولاد کی سنگین غلطیوں پر پردہ ڈال رہے کبھی رشوت دیکر کبھی دیت ادا کرکے۔ ظاہر جعفر کا باپ بہت بڑی کامیاب تعمیراتی کمپنی کا مالک لیکن اپنے ہی بیٹے کے کردار کی تعمیر میں بری طرح ناکام ہو گیا۔ دوسروں کے بچوں کی کونسلنگ کرتی ماں اپنے بیٹے کا آخر تک ناجائز دفاع کرتی رہی۔ یہ صرف ایک کیس نہیں بلکہ ہر ہر طبقے کیلئےلمحہ فکریہ ہے کیونکہ الحادیت و جدیدیت کا زہر اب مڈل کلاس بلکہ مزدور طبقے تک میں سرایت کر چکا ہے۔ کبھی کوئی لڑکا لڑکی کی لاش، غیرقانونی  اسقاط حمل کے بعد یونیورسٹی کے گیٹ پر پھینک کر چلا جاتا تو کبھی کوئی عثمان مرزا سالوں لڑکیوں کو بلیک میل کر کے ریپ کرتا رہتا۔

خدارا! لڑکیوں کو چاہیے اپنی آنکھیں کھولیں۔ کوئی بھی غیر محرم کبھی اعتبار کے قابل نہیں ہوسکتا۔ پیار و محبت کے جھانسے میں آ کر اپنی اور اپنے والدین کی عزت کو داؤ پر نہ لگائیں۔ جو حقیقی چاہت رکھتا وہ باعزت طریقے سے رشتہ بھیجتا گیسٹ ہاؤسز میں چھپ کر نہیں بلاتا نہ برہنہ تصاویر مانگتا۔ خدارا سمجھیں یہ محبت نہیں ہوس ہے اور دنیا ہوس کے پجاریوں سے بھری پڑی۔ اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں، بہن، بیٹی، بیوی جو مقام دیا ہےاسی میں عورت کی عزت محفوظ ہے باقی ہر رشتہ بس ٹائم پاس اور جھوٹ ہے جس کا مقدر ذلت ہوتا۔ لڑکوں کے جھانسے میں آکر صرف رسوائی مقدر ہوتی یا دردناک موت۔

ابھی بھی وقت ہے ہمارا معاشرہ اپنی ان قدروں کیطرف واپس پلٹ جائے جن کو دقیانوسی کہہ کر ہم ترک کر چکے ہیں۔ اخلاقیات، شرم وحیاء، والدین کا احترام سب سے بڑھ کر اسلام کی اقدار و روایات کو دوبارہ سماج میں رائج کرنا ہوگا۔ رزق حلال اور قناعت پسندی کو اپنانا ہو گا۔ جائز و ناجائز طریقے سے دولت کمانے کے چکر میں ہم نے اللّٰہ تعالیٰ کو بھی ناراض کردیا ہے اور خود کو تباہی کے دہانے پر بھی کھڑا کر دیا ہے۔ نتیجتاً دین، دنیا، آخرت سب ہم سے چھنتی جا رہی۔ نور کیس نے یہ بات سمجھا دی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔

نور مقدم کیس پورے معاشرے کیلئے عبرت بھی ہے اور سبق بھی۔ اس سانحہ نے ہمارے معاشرے کی وہ مکروہ حقیقت آشکار کردی ہے جس سے ہم سب کہیں نہ کہیں نظریں چرا رہے تھے۔ والدین سے دست بدست التجا ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ ان کی تربیت صحیح اسلامی اصولوں پر کریں۔ ان کو رزق حلال مہیا کریں اس سے پہلے کہ آپ کی اپنی اولاد کا انجام نور یا جعفر جیسا ہو۔

 بقول اقبال

 رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے

روشن ہے نگہہ آئینۂ دل ہے مکدر

بڑھ جاتاہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے

ہوجاتے ہیں افکار پر اگندہ و ابتر

@once_says

Comments are closed.