عظیم گلوکارہ "ملکہ ترنم” نورجہاں کی 24ویں برسی

noor jahan

آج 23 دسمبر کو برصغیر کی مشہور و مقبول گلوکارہ، "ملکہ ترنم” نورجہاں کی 24ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ نورجہاں، جن کا اصل نام اللہ وسائی تھا، 1926 میں قصور، پنجاب کے ایک موسیقار خاندان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز نو برس کی عمر میں کلکتہ سے بطور چائلڈ سنگر کیا اور جلد ہی اپنی آواز اور گائیکی کے منفرد انداز سے ایک نئی پہچان حاصل کر لی۔

پیدائش کے وقت نور جہاں کی خالہ نے نومولود بچے کے رونے کی آواز سن کر کہا، اس بچے کے رونے میں موسیقی ہے۔ نورجہاں کے والدین تھیٹر میں کام کرتے تھے۔ گھر میں فلمی ماحول کی وجہ سے نور جہاں بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھیں،نور جہاں نے فیصلہ کیا کہ وہ بطور پلے بیک سنگر اپنی شناخت بنائیں گی۔ ان کی والدہ نے نورجہاں کے ذہن میں موسیقی کی طرف بڑھتے ہوئے جھکاؤ کو پہچان لیا، اس راستے پر آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور گھر پر موسیقی سیکھنے کا انتظام کیا۔

نور جہاں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم کجن بائی سے اور کلاسیکی موسیقی کی تعلیم استاد غلام محمد اور استاد بڑے غلام علی خان سے حاصل کی، 1930 میں نور جہاں کو انڈین پکچر کے بینر تلے بننے والی خاموش فلم ’ہند کے تارے‘ میں کام کرنے کا موقع ملا، کچھ عرصے بعد ان کا خاندان پنجاب سے کلکتہ چلا گیا، اس عرصے کے دوران انہیں تقریباً 11 خاموش فلموں میں اداکاری کرنے کا موقع ملا، 1931 تک نور جہاں نے بطور چائلڈ آرٹسٹ اپنی پہچان بنا لی تھی۔ 1932 میں ریلیز ہونے والی فلم ششی پنوں نورجہاں کے سینما کیرئیر کی پہلی ٹاکی فلم تھی، اس عرصے میں نورجہاں نے کوہ نور یونائیٹڈ آرٹسٹ کے بینر تلے بننے والی کچھ فلموں میں کام کیا۔ کولکتہ میں ان کی ملاقات فلم پروڈیوسر پنچولی سے ہوئی،پنچولی نے نورجہاں کو فلم انڈسٹری کی ابھرتی ہوئی اسٹار کے طور پر دیکھا اور انہوں نے انہیں اپنی نئی فلم گل بکاولی کے لیے منتخب کیا،اس فلم کے لیے نورجہاں نے اپنا پہلا گانا ’سالا جوانیاں مانے اور پنجرے دے وچ‘ ریکارڈ کروایا۔ تقریباً تین سال کولکتہ میں رہنے کے بعد نور جہاں واپس لاہور چلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات مشہور موسیقار جی اے چشتی سے ہوئی، جو اسٹیج پروگراموں میں موسیقی دیا کرتے تھے۔ انہوں نے نورجہاں کو اسٹیج پر گانے کی پیشکش کی جس کے بدلے میں نورجہاں کو فی گانا ساڑھے سات آنہ دیا گیا۔ ان دنوں ساڑھے سات آنہ اچھی رقم سمجھی جاتی تھی۔1939 میں پنچولی کی میوزیکل فلم گل بکاولی کی کامیابی کے بعد نور جہاں فلم انڈسٹری کی ایک مقبول شخصیت بن گئیں۔ اس کے بعد سنہ 1942 میں پنچولی کی پروڈیوس کردہ فلم خاندان کی کامیابی کے بعد نور جہاں نے بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنائی۔

نورجہاں نے اپنی زندگی کے 35 سال سے زائد عرصے تک پاکستان اور ہندوستان کی فلم انڈسٹری پر اپنی آواز کا جادو چلایا اور اپنے دور کی سب سے اہم گلوکارہ کے طور پر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے اردو، پنجابی، سندھی اور دیگر زبانوں میں تقریباً 10,000 گانے ریکارڈ کیے، جو آج بھی موسیقی کی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران، نورجہاں کے ملی نغموں نے پاکستانی عوام اور فوج میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا۔ ان کے گانے "ہمتِ مردانہ”، "دل دل پاکستان” اور دیگر نغمے آج بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہیں۔ ان کی آواز نے فوجیوں میں حوصلہ پیدا کیا اور عوامی جذبات کو مضبوط کیا۔

نورجہاں کی فنی زندگی میں بے شمار ایوارڈز اور اعزازات شامل ہیں۔ 1957 میں انہیں بہترین گلوکاری اور اداکاری کے لیے صدر پاکستان ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے نگار ایوارڈ، پرائیڈ آف پرفارمنس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، ستارہ امتیاز، پی ٹی وی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور ملینیم ایوارڈ جیسے اہم اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ان کے گانے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سنے جاتے ہیں، اور ان کا اثر آج بھی موجود ہے۔ نورجہاں کی آواز کی مٹھاس اور گائیکی کے جذباتی رنگ ہمیشہ ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

2000 میں آج ہی کے دن نورجہاں کراچی میں انتقال کر گئیں اور انہیں رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو دفن کیا گیا۔ ان کی وفات ایک ایسا لمحہ تھا جس سے پاکستانی قوم اور موسیقی کی دنیا ہمیشہ کے لیے غمگین ہو گئی۔نورجہاں کا فن اور ان کی شخصیت آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی آواز کی جادوگری، ان کے ملی نغمے اور ان کی بے شمار موسیقی کی تخلیقات انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی برسی پر مداحوں نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی یاد میں محافل منعقد کیں، جہاں ان کے گانے سن کر لوگوں نے اپنے پسندیدہ گانے دوبارہ سنے۔نورجہاں کا نام ہمیشہ گلوکاری کی دنیا میں ایک سنہری باب کے طور پر زندہ رہے گا اور ان کی گائیکی ہمیشہ نسلوں تک منتقل ہوتی رہے گی۔

Comments are closed.