کوئی تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے
نور جہاں ثروت ۔اردو صحافت کی خاتون اول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ ولادت:28 نومبر 1949ء
تاریخ وفات:17 اپریل 2010ء
نورجہاں ثروت کی پیدائش دہلی میں 28 نومبر 1949ء کو ہوئی۔ ان کی پرورش ان کی نانی کے سائے میں ہوئی۔ جب انہوں نے دہلی کالج میں داخلہ لیا تو شعبۂ اردو کے صدر مشہور شاعر جاوید وششٹ تھے‘ تو ثروت کو بھی شعر کہنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز 1970ء میں اردو کے مشہور رسالے ’سیکولر ڈیموکریسی‘ سے ہوا۔ وہ واحد خاتون ہیں جنھیں اردو صحافت کی ’خاتون اول‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انھیں کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں لالہ جگت نرائن صحافت ایوارڈ (1985ء)‘ راجدھانی سوتنتر لیکھک ایوارڈ (1986ء)‘ نشانِ اردو برائے ادبی خدمات (1989ء)‘ نئی آواز برائے صحافت ایوارڈ (1994ء)‘ میر تقی میر ایوارڈ (1995ء)‘ انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف فار ایجوکیشن فار ورلڈ برائے صحافت (1999ء)‘ قومی تحفظ و بیداری ایشین اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن ایوارڈ (2000ء)‘ میڈیا انٹر نیشنل ایوارڈ (2002ء) اور اردو اکادمی دہلی ایوارڈ (2010ء) شامل ہیں۔
نور جہاں ثروت کا انتقالِ 17 اپریل 2010ء کو دہلی میں ہوا۔
غزل
۔۔۔۔۔
کون تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے
جانے کس موڑ پہ کھو جائے اندھیرے میں کہیں
وہ تو خود سایہ ہے جو راہ دکھاتا ہے مجھے
اس کی پلکوں سے ڈھلک جاؤں نہ آنسو بن کر
خواب کی طرح جو آنکھوں میں سجاتا ہے مجھے
عکس تا عکس بدل سکتی ہوں چہرہ میں بھی
میرا ماضی مگر آئینہ دکھاتا ہے مجھے
وہ بھی پہچان نہ پایا مجھے اپنوں کی طرح
پھول بھی کہتا ہے پتھر بھی بتاتا ہے مجھے
اجنبی لگنے لگا ہے مجھے گھر کا آنگن
کیا کوئی شہر نگاراں سے بلاتا ہے مجھے
کسی رت میں بھی مری آس نہ ٹوٹی ثروتؔ
ہر نیا جھونکا خلاؤں میں اڑاتا ہے مجھے
غزل
۔۔۔۔۔
پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا
دور سے آواز مجھ کو حادثہ دینے لگا
طے کرو اپنا سفر تنہائیوں کی چھاؤں میں
بھیڑ میں کوئی تمہیں کیوں راستہ دینے لگا
راہزن ہی راہ کے پتھر اٹھا کر لے گئے
اب تو منزل کا پتا خود قافلہ دینے لگا
غربتوں کی آنچ میں جلنے سے کچھ حاصل نہ تھا
کیسے کیسے لطف دیکھو فاصلہ دینے لگا
شہر نا پرساں میں اے ثروتؔ سبھی قاضی بنے
یعنی ہر نافہم اپنا فیصلہ دینے لگا
غزل
۔۔۔۔۔
یوں تو کہنے کو ہم عدو بھی نہیں
ہاں مگر اس سے گفتگو بھی نہیں
وہ تو خوابوں کا شاہزادہ تھا
اب مگر اس کی جستجو بھی نہیں
وہ جو اک آئینہ سا لگتا ہے
سچ تو یہ ہے کہ روبرو بھی نہیں
ایک مدت میں یہ ہوا معلوم
میں وہاں ہوں جہاں کہ تو بھی نہیں
ایک بار اس سے مل تو لو ثروتؔ
ہے مگر اتنا تند خو بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش و ترسیل : آغا نیاز مگسی