ہارون نور محمد: جنہیں مادر وطن کی محبت ایک بار پھر پاکستان لے آئی

ہارون نور محمد — ایک ایسا نام جو با بصیرت قیادت، انسانیت کی خدمت اور بین الاقوامی سفارت کاری کا استعارہ بن چکا ہے — ایک بار پھر اپنے پیارے وطن پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھ چکے ہیں، عالمی تجارت اور سماجی خدمت میں 48 سال سے زائد کا شان دار تجربہ رکھنے والے ہارون نور محمد کی حکومتِ پاکستان کی دعوت پر وطن واپسی ایک باوقار لمحہ، سنجیدہ غور و فکر اور تجدیدِ عہد کی علامت ہے۔

جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ہارون نور محمد صرف 13 سال کی عمر میں پاکستان آ گئے تھے، ان کی ابتدائی تعلیم ملک کے مایہ ناز اداروں میں ہوئی، جن میں کراچی گرامر اسکول، سینٹ پیٹرک کالج اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) شامل ہیں، جہاں سے انہوں نے 1963 سے 1976 کے دوران ایم بی اے مکمل کیا اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف تب سامنے آیا جب وہ 1971-72 میں سینٹ پیٹرک کالج کے صدر منتخب ہوئے، یہی جذبہ انہیں آگے لے گیا اور 1976 میں انہوں نے HNM انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ کی بنیاد رکھی—ایک ایسا تجارتی ادارہ جو آج بین الاقوامی تجارتی تعاون اور اقتصادی خوشحالی کی پہچان بن چکا ہے۔

اگرچہ آج کل وہ پریٹوریا، جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں، لیکن ان کا کردار کاروبار سے کہیں آگے تک پھیلا ہوا ہے۔ ہارون ایک پُرخلوص انسان دوست کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنہوں نے قومی سانحات کے موقع پر، خاص طور پر 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب کے دوران، معروف سماجی رہنما عبدالستار ایدھی مرحوم کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا۔ انسانیت کی بے لوث خدمت پر انہیں دنیا بھر کے رہنماؤں نے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

پاکستان کی سابق وزیرِاعظم، شہید محترمہ بینظیر بھٹو بھی ہارون نور محمد کی معترف تھیں انہوں نے ہمیشہ انہیں ’’پاکستان کا بیٹا‘‘ قرار دیا اور ان کی انسان دوستی و سماجی خدمات کو سراہا ان دونوں شخصیات کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ہارون نور محمد نے کبھی اپنی جڑوں اور قوم سے رشتہ نہیں توڑا۔

اب پندرہ سال کے طویل عرصے کے بعد وہ ایک بار پھر لاہور آئے ہیں۔ ان کا یہ دورہ روحانی جذبات اور حب الوطنی سے لبریز ہے۔ انہوں نے داتا دربار پر حاضری دی، فاتحہ پڑھی اور خاص طور پر پاکستان کی سلامتی، خوش حالی اور عوام کی فلاح کے لیے دعائیں کیں۔ اس موقع پر اپنے دل کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

"پاکستان میری ماں دھرتی ہے، میرے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے۔ مجھے اس ملک اور اس کے لوگوں سے بے حد محبت ہے۔ ان کی سلامتی اور خوش حالی میری دل کی دعا ہے، اور میں ہمیشہ ان کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہوں۔”

بیرون ملک رہنے کے باوجود، ان کے یہ الفاظ اس سچائی کو بیان کرتے ہیں کہ وطن سے محبت کا کوئی فاصلہ اور کوئی وقت حد نہیں بنتا، یہ محض ایک کامیاب بزنس مین اور سماجی کارکن کی واپسی نہیں، بلکہ ایک بیٹے کی اپنی مادرِ وطن سے جذباتی واپسی ہے۔

ہارون نور محمد کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قیادت، خلوص، اور حب الوطنی نہ صرف سرحدوں کے اندر بلکہ باہر بھی دیرپا اثرات پیدا کرتی ہے۔ جیسے جیسے وہ پاکستان میں اپنی مصروفیات جاری رکھے ہوئے ہیں — قومی رہنماؤں سے ملاقاتیں، عوام سے روابط، اور خدمت کے نئے امکانات تلاش کر رہے ہیں — قوم ان کا پرجوش خیر مقدم کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ صرف ایک شخصیت نہیں، بلکہ ایک اُمید، حوصلے، اور اتحاد کا استعارہ بن چکے ہیں

Shares: