کیا کل کے تخت نشیں آج کے مجرم ٹھہرنے والے ہیں؟
تمہید باندھنا قلم کاری کی روایت ہے۔ اس سے انحراف کی صورت ایک ہی ہے، وہ ہے موضوع کی نوعیت اور اس کی مناسبت سے وقت کا تقاضا۔ آرٹیفیشکل انٹیلیجنس جب پاکستان میں متعارف ہوئی تو عام آدمی تک اس کا علم صرف اتنا تھا کہ اس سے میسج کریں تو خودکار جواب مل جاتا ہے۔ کچھ ماہ میں اس کی مدد سے تصاویر ایڈیٹ کی جانے لگیں۔ ماہ و سال نہیں اب ہفتوں سے بات دنوں پر آ گئی ہے اور عام آدمی کی رسائی تیزی سے اے آئی کے مزید فیچرز تک جا پہنچی ہے۔ پرامٹ کا لفظ کئی نیم خواندہ لوگ بھی استعمال کرتے ہیں، جو اے آئی کے درست استعمال کی بنیاد ہے۔ ویڈیو ایڈیٹنگ تو پہلے ہی کیپ کپ اور ٹک ٹاک کی بدولت ہر بندہ کرلیتا تھا۔ اے آئی کی کوڈنگ نے اسے نہ صرف آسان کیا بلکہ جو لوگ رہتے تھے ان کو بھی ویڈیو ایڈیٹر بنا دیا۔ فیک وائس، ڈیپ فیک ویڈیوز، اے آئی جنریٹیڈ پکچرز۔یہ الفاظ اب روزمرہ زبان کے عام الفاظ بن چکے ہیں۔ جب ہم اے آئی سے چیٹ کرکے چیزا لے رہے تھے اور حسب عادت گالیاں لکھ کر مذاق اڑا رہے تھے، عین اسی وقت ترقی یافتہ اقوام نے یہ بات جان لی کہ مستقبل میں علم کا مرکز کیا ہو گا۔ اس وقت چین اے آئی کو ہر سطح پر نصاب تعلیم میں شامل کر چکا ہے۔ دیگر بڑے ممالک میں بھی اس چیز کو سنجیدگی سے اپنایا جا رہا ہے۔ پی ایچ ڈی سکالرز اور ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے تو اے آئی کافی عرصہ سے استعمال میں ہے (کچھ ترقی یافتہ ممالک میں) جبکہ ربوٹکس، مشین آپریٹنگ ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبوں میں اے آئی انقلاب مکمل طور پر ٹیک اوور کرنے سے چند مراحل دور ہے۔ دنیا مصنوعی ذہانت کے استعمال کے لیے اخلاقی حدود اور قوانین بنا چکی ہے۔ اب اس بات پر غور جاری ہے کہ کیا انسان کی یہ ایجاد کسی مرحلہ پر انسان کے خلاف ہو سکتی؟ اس تمام پس منظر میں ہم کیا کر رہے ہیں؟ کہاں کھڑے ہیں؟ ہم مفت اے آئی کورسسز کے اشتہار لگا کر لوگوں کو اپنے اداروں کی طرف لاکر پھر کچھ عرصہ بعد مزید بہتر سکھانے کے لیے رقم کا تقاضا ۔ آن لائن ٹریڈنگ، امیزون ٹریڈنگ، فاریکس ٹریڈنگ ٹرک کی وہ ٹیل لائیٹس ہیں جن کے پیچھے ہر نوجوان گھر سے پیسے لے کر برباد کر رہا ہے۔ ہم چکن گیم کھیل کر جوئے سے کمائی کر رہے ہیں۔ ہم فری فائر اور پب جی، آن لائن لڈو ٹورنامنٹ میں ورلڈ چیمپئن شپ کھیل رہے ہیں۔ ہم اے آئی سے ویڈیوز بنا رہے، تصاویر بنا کر خوش ہو رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو فخریہ بتا رہے کہ اے آئی کورس کیا ہوتا؟ میں سب جانتا، ایک پرامٹ درست دینا آتی ہو پھر تو سب کام مشین نے کرنا۔ بدقسمتی سے سب کانٹینینٹ کے اسلامک ورژن میں صوفی ازم اور توہم پرستی اتنی ہے کہ ہم کوئی بھی چیز جو سمجھ نہ آئے اسے کرامت قرار دے دیتے ہیں اور جو کام ہاتھ سے کرنا ہو وہ زبان سے کر لیتے ہیں۔ لہذا اے آئی کو ہم نے ڈیجیٹل ولی سمجھ کر پرامٹ کی بیعت کو کافی جانا ہے۔ اب یہ جوتا ہمارے ہی سر پر بجنے کو ہے۔ اس کے لیے ہفتے نہیں دن چاہیں۔ لیکن ہنوز ہم” ۔۔۔۔۔ کا دھوبی ہوں "کہہ کر بچنے کی امید میں ہیں۔ حالانکہ بچا وہ بھی نہیں تھا کیونکہ فرشتے بھی اے آئی ہی سمجھ لیں، ان کو جو پرامٹ اللہ نے دی ہے اس میں من ربک کا ایک ہی آپشن درست ہے، دھوبی والے جواب پر پرامٹ سیٹ ہے، گرز بلا توقف حرکت میں آتا ہے۔
ویسے ٹاپک سے ہٹ کر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں: فرشتے کو جو کہا جائے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہوں، یہ کلیم زیادہ بڑا اور مضبوط ہے یا ۔۔۔۔۔ کے دھوبی ہونے کا؟ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہونا بہت وزنی کلیم ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا، اے فاطمہ میری بیٹی! میرے مال میں سے جو لینا ہے لے لو، لیکن قیامت کے دن اگر اللہ نے پکڑ لیا تو میں کچھ نہ کر پاؤں گا۔ اے میرے چچا عباس! میرے مال سے جو لینا ہے لے لو لیکن قیامت کے دن میں کچھ کام نہ آؤں گا۔ اور ہم پھر کس حیثیت سے ایسے لطائف سن کر یقین کر لیتے کہ فلاں کا دھوبی، فلاں کا نوکر، اور بخشش؟ یہ تصوف کے ڈیپ فیک ہیومن انٹیلیجنس بیسڈ قصے ہیں۔
واپس اے آئی پر۔ اگر ہم نے یہی حرکتیں جاری رکھیں تو چند ماہ میں ہمارا برٹش میڈ 1860 کا دم توڑتا نظام تعلیم مکمل طور پر فارغ ہو جانا ہے۔ جس نوعیت کا قابل شیر جوان مملکتِ خداداد میں 16 سال کی تعلیم، ماں کی دعا، باپ کی مار، اساتذہ کی محنت اور موصوف کی ذاتی کاوش سے کی گئی نقل مل کر پیدا کرتی ہے، وہ اے آئی کی کوڈنگ میں 16 دن لگنے اور بن جانا ہے۔ یعنی اس استعداد کی مشین جو ہر وہ بات جانتی ہو جو آپ کا ماسٹرز ڈگری ہولڈر جانتا ہے۔ اس وقت ضرورت نہیں بلکہ لازم ہے کہ ہم اپنا نظام تعلیم ازسرنو وضع کریں۔ اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر کہ پیچیدہ ترین ریاضی و سائنس اب اے آئی کی مکمل دسترس میں ہے اور ہمیں اس چیز کو ماننا ہوگا کہ ہماری تمام تر سائنسی مضامین و ریاضی آنے والے دنوں میں اسی طالب علم یا پروفیشنل کو قریب پھٹکنے دیں گے جو اے آئی کا استعمال ایڈوانس لیول پر جانتا ہوگا۔ سوشل سائنسز میں البتہ انسانی عمل دخل زیادہ ہے اور رہے گا کیونکہ انسانی نفسیات و جذبات کی پیچیدہ راہیں اے آئی کے بس سے فی الحال باہر ہیں۔ لیکن اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہمیں ابتدائی کلاسز سے اے آئی کورس میں شامل کرنا ہوگا اور اپنی تمام کلاسز میں اسے بطور مضمون پڑھانا بھی ہوگا۔ کیونکہ جس قدر تیزی سے اے آئی کا پھیلاؤ جاری ہے اس میں ہمارا نظام تعلیم مکمل فلاپ ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ اے آئی آرہی ہے یا نہیں ؟ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم کو کب اس کے برابر چلائیں گے؟ اس کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم نصاب سے وہ ساری زنگ آلود پرتیں ہٹائیں جو 1860 کے برطانوی ڈھانچے سے چمٹی ہوئی ہیں۔ ہمیں متن، رٹہ اور غیر ضروری رٹے ہوئے سوالات نہیں چاہیے؛ ہمیں وہ بچے چاہیے جو اے آئی سے صحیح سوال پوچھنا جانتے ہوں۔ جو اسے بطور ٹول استعمال کرنا سیکھیں، نہ کہ اس سے ڈر کر بھاگیں یا صرف تصویریں بنا کر خوش ہوں۔
ہمیں ہر سطح پر اے آئی لٹریسی (AI Literacy) کو بنیادی مضمون بنانا ہوگا۔ پرائمری میں بچوں کو کمپیوٹیشنل سوچ اور روبوٹکس کی بنیاد دی جائے۔ مڈل اور ہائی اسکول میں اے آئی کے استعمال، غلطیوں اور خطرات کو سمجھایا جائے۔ کالج اور یونیورسٹی میں عملی تربیت، ڈیٹا اینالسس، پرامٹ انجینئرنگ، تحقیق، اور اے آئی ڈویلپمنٹ کے عملی کورسز شامل کیے جائیں۔استاد کی ٹریننگ سب سے اہم مرحلہ ہے۔ جس استاد کو خود اے آئی کا استعمال نہیں آتا وہ اگلی نسل کو کیا سکھائے گا؟ استاد کو اس سطح پر لانا ہوگا کہ وہ خود اے آئی سے بہتر مواد، مشقیں، اور ٹیسٹ تیار کر سکے اور طلبہ کو وہ صلاحیتیں سکھائے جو مشین نہیں سکھا سکتی۔ تنقیدی سوچ، اخلاقیات، فیصلہ سازی، اور انسانی اقدار۔آخر میں، ہمیں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اے آئی لیبز قائم کرنا ہوں گی. جہاں بچے صرف پڑھیں نہیں بلکہ بنا سکیں، تجربہ کر سکیں، ناکامی سے سیکھ سکیں، اور خود کو مستقبل کے لیے تیار کر سکیں۔ اگر ہم نے آج یہ بنیاد رکھ دی تو آنے والا دور ہمارے ہاتھ میں ہوگا۔ اگر نہ رکھا تو تاریخ ہمیں ایک بار پھر پیچھے چھوڑ دے گی، اور ہم اس انقلاب کے تماشائی بن کر رہ جائیں گے، شریک نہیں۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
مبشر حسن شاہ








