انتخابات اور سیاسی کشیدگی ،نقصان صرف ملک اور غریب عوام کا،تحریر: خادم حسین

protst khi

پنجاب اور کے پی کے الیکشن قبل ازوقت کروانے کے آئینی عمل نے اس نام نہاد جمہوری سسٹم کا پول کھول دیا ہے۔ جہاں حکومت محض ذاتی مفادات کے خاطر الیکشن نہ کروا کر آئین اور عدلیہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر عدلیہ مخالف تقریریں اور حکم عدولی کی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے 90روز کے اندر الیکشن کروانے کی بجائے سپریم کورٹ سے درخواست کررہا ہے کہ الیکشن کے عمل میں آپ مداخلت نہ کرے الیکشن کمیشن کا کام ہے ہمیں ہی کرنے دیں اور جو صورتحال نظر آرہی ہے اگر اسی طرح سسٹم رہا پھر تو حکومت اگر چاہے تو قیامت تک الیکشن نہ کروائے اور یہی کہتی رہی کہ فنڈز نہیں دینے، سیکورٹی نہیں دینی۔سیاسی جماعتوں کی لڑائیاں تو اپنی جگہ پر مگر اب اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑاکرنے سے نقصان صرف ملک اور غریب عوام کا ہورہا ہے جن کی مہنگائی کی چکی میں پیسا جارہا ہے جن کے لیے زندگی محال ہورہی ہے، جن کے دکھ درد میں مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور لاقانونیت کی وجہ سے اضافہ کیا جارہا۔ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہورہی ہے۔ چوری، ڈکیتی کی وارداتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ مگر ریاست کے بااختیار، طاقتور اور اربوں کھربوں پتی سیاستدانوں کو ان مسائل سے کیا انہوں نے تو ہر دور میں ہر طرح سے عوام کا خون چوسنا ہے اور چوس رہے ہیں، ان کے کاروبار، جائیدادیں، بال بچے سب کچھ تو بیرون ملک ہے یہاں تو وہ صرف حق حکمرانی کے لیے آتے ہیں۔یہاں کتنے ججز اور بیوروکریٹس ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کی آخری سانسیں پاکستان میں لیتے ہوں؟

انتخابات کے معاملے پر نہ صرف سیاستدانوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے بلکہ ریاستی اداروں میں بھی ماحول کشیدہ ہوچکا ہے۔ زیرک سیاستدان، صحافی، تجزیہ نگار، دانشور تو کئی دہائیوں سے اس سسٹم کو ناکارہ قرار دیتے آئے ہیں اور اسے طاقتوروں، لٹیروں اور مافیاز کا سہولت کار سمجھتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں طاقتوروں کے لیے الگ قانون اور غریب لوگوں کے لیے الگ قانون نظر آتا ہے، امیر لوگ پیسے کے ذریعے اس سسٹم سے ہر جرائم کے بعد ایسے بچ کر نکل جاتے ہیں جیسے مکھن سے بال اور غریب بے چارہ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی کئی کئی سال کال کوٹھڑیوں میں بند رہنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس دولت نہیں کہ وہ سسٹم کے تحت اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرسکے۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت شروع سے ہی برائے نام ہی رہی ہے، جو کوئی جمہوری ادوار گزرے ہیں انہیں بھی کٹھ پتلی حکمران ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ جس وزیر اعظم نے بھی آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی کوشش کی، عوامی ریلیف کے لیے کوئی کام کرنے کی کوشش کی تو اس کا دھڑن تختہ کردیا گیا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں موروثیت کا شکار ہونے کی وجہ سے ہی حقیقی جمہوریت پنپ ہی نہیں سکی۔ حق بات کہنے والے پارٹی لیڈر کو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پارٹی سے نکال باہر کیا جاتا ہے، پارٹیوں سے نکالنے کے لیے کوئی قاعدہ قانون، شوکاز نوٹس یا پھر کسی قسم کی کارروائی کے بغیر ہی میڈیا پر اعلان کردیا جاتا ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے پر فارغ کردیا گیا ہے، حالانکہ جمہوری معاشروں میں پارٹی پالیسیاں بھی پارٹی بناتی ہیں مگر یہاں لیڈر جو سوچ لیتا ہے وہی پارٹی پالیسی بن جاتی ہے۔

معاشرے انصاف کی بنیاد پر قائم رہتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں، جہاں عدل کا توازن بگڑ جائے وہاں زندگی اجیرن ہوجاتی ہے، بدقسمتی سے اشرافیہ نے پاکستان کا وہ حال کردیا ہے کہ جہاں سچ بولنا جرم بن جاتا ہے، لوگ اپنی بے بسی کا نوحہ بھی نہیں پڑھ سکتے، اگر حکومت ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردے تو پھر باقی اداروں اور عام لوگوں میں عدلیہ کے فیصلوں کی اہمیت کیا رہ جائے گی؟ اور جب عدالتیں لوگوں کو انصاف ہی فراہم نہ کرسکیں تو پھر یہ انسانوں کی نہیں بلکہ حیوانوں کی بستی بن جائے گی۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون بن جائے گا۔ مہذب معاشروں کے بارے کہا جاتا ہے کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے، جس میں ہر فرد کی ضروریات کا خیال رکھنا ریاست کے ذمہ ہوتا ہے مگر پاکستان میں ریاست لوگوں کو انصاف فراہم کررہی ہے نہ ہی ووٹ کے ذریعے اپنے حکمران منتخب کرنے کا حق دے رہی ہے تو پھر لوگ کیا کریں، ریاست کے ذمہ داران کو ابھی بھی سرجوڑ کربیٹھ جانے کی ضرورت ہے اور سیاسی کشیدگی کو کم کروائیں، فوری انتخابات کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار منتخب لوگوں کے حوالے کر کے تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ملکی ترقی، سلامنی، امن و امان اور خوشحالی کے لیے کام کریں صرف اسی صورت پاکستان دنیا میں ترقی کرسکتا ہے۔

سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک معاشی طور پر بھی عدم استحکام کا شکار ہوا۔ لوگوں کا معیارزندگی پست ہوگیا۔ ملک میں ایک ہیجانی کیفیت برپا ہے کوئی سمجھ نہیں کہ اگلے لمحہ کیا فیصلہ ہونے والا ہے، کیا رد عمل آئے گا۔ ایک ایٹمی ملک کا اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہونا ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ آئی ایم ایف کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہوجانا بھی لمحہ فکریہ ہے، ریاست کے ذمہ داران نے کبھی اس معاملے پر غور کیا کہ قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم پر انجام کیا ہوگا؟ کیا ہمارا آج کا طرز حکمرانی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق ہے؟ کیا ہم ملک میں افراتفری یا پھر انارکی چاہتے ہیں؟ پاکستان میں جس طرح سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اداروں کے درمیان ٹکراؤ جاری ہے اس سے خدانخواستہ تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتحال سے نکلنے کے لیے اگر کوئی جامع حکمت عملی تیار نہ کی گئی تو پھر اس کے نتائج بھی بھیانک ہونگے۔

Comments are closed.