باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ میرے دوست اور بھائی آج میرے ساتھ ہیں سلیم صافی،کسی تعارف کے محتاج نہیں، جیو پر انکا بڑا مقبول شو ہوتا ہے
مبشر لقمان نے سوال کیا کہ صافی صاحب سب سے پہلے یہ بتائیے گا کہ کیا اس اے پی سی میں مولانا فضل الرحمان کی آواز دب نہیں گئی جس پر سلیم صافی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں مولانا فضل الرحمان نے کسی حد تک اپنی آواز منوا لی ہے ان سے، آپ دیکھیں کہ دو حوالوں سے مولانا فضل الرحمان کو کامیابی ہوئی ہے، ایک یہ کہ وہ الیکشن کے بعد سے یہ کوشش کر رہے تھے کہ پی پی اور ن لیگ کو اپوزیشن میں لے آئیں لیکن دونوں جماعتیں اپوزیشن میں آنے کو تیار نہیں تھیں، یہ جعلی اپوزیشن تھی، اس میں کنڑیبیوشن خود عمران خان صاحب کا اور نیب ،اور اس اقدامات کا ہے، وہ شریف سے شریف بننا چاہ رہے تھے لیکن حکومت اور نیب نے دھکے دے دے کر انہیں مولانا کی طرف دھکیل دیا، ایک طرف تو سردست ،تا دم تقریر، تحریر،کیونکہ ٹریک ریکارڈ بتا رہا ہے کہ ن لیگ ایک مہینے کے لئے انقلابی بن جاتی ہے اور دو مہینے شریف، یہ وقت بتائے گا، اس اے پی سی نے مولانا اور انکی اتحادی چھوٹی جماعتوں سے اتفاق کر لیا، ڈرائیونگ سیٹ پر پی پی تھی، پی پی کے بارے میں ابھی بھی مولانا کو شک ہے، ن لیگ کو بھی شک ہے ، مجھے بھی یقین ہے کہ وہ سندھ حکومت کو نہین چھوڑیں گے ،قرارداد پہلے تو یہ تھا کہ الگ الگ رہبر کمیٹی،کبھی مولانا زرداری کی منتیں کریں کبھی کس کی، اب ایک اتحاد اور اسکے نام پر اتفاق ہو گیا، اسکے تنظیمی سٹراکچر پر اتفاق ہو گیا، اب اسکی قیادت کا نام بھی مولانا فضل الرحمان کا ہی نکلے گا کیونکہ پی پی نہیں چاہے گی کہ ن لیگ قیادت کرے،البتہ یہ انکی ناکامی ہے کہ پی پی کو ابھی استعفیٰ دینے پر آمادہ نہیں کر سکے
مبشر لقمان نے سوال کیا کہ جب تک یہ استعفے نہیں دیں گے تو اپوزیشن کی موو کیا بنے گی، جس پر سلیم صافی کا کہنا تھا کہ دیکھیں میں تو تب تک اسکو سنجیدہ نہین لوں گا،ایک وجہ تو یہ ہے جب تک یہ لوگ استعفے نہیں دیتے یہ اخلاقی جواز سے محروم رہتے ہیں، آپ اس پارلیمنٹ جو جعلی کہتے ہیں، دھاندلی کی پیداوار کہتے ہیں پھر اسی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں،پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں، اس لحاظ سے وہ سنت عمران زندہ کرتے ہیں، پچھلی اسمبلی میں دھرنے میں استعفے دیئے پھر وہ بیٹھے بھی، سول نافرمانی تک وہ گئے لیکن خیبر پختونخواہ حکومت توڑنے کی بات نہیں کر رہے تھے، اب وہی کام پی پی اور ن لیگ کر رہی ہے، اگر پارلیمنٹ جعلی ہے تو آپ بھی بیٹھے کیوں ہیں، آپ بھی پھر جعلی ہیں،پارلیمنٹ کو بطور ربڑ سٹیمپ استعمال کیا گیا، ن لیگ اور پی پی نے کاندھا پیش کیا، دو سالوں میں انکے سیاسی گناہ ہیں، اگر حکومت بھی عوام کے جذبات کی ترجمانی نہیں کر سکی تو ان دو جماعتوں نے بھی عوام کے لئے سیاست نہیں کی، جس طرح حکومت جعلی ہے اس طرح دو سالوں میں اپوزیشن بھی جعلی تھی، اب بھی اگر گناہوں کی تلافی چاہتے ہیں اور لوگوں کا اعتماد بحال کرنا چاہتے ہین تو پہلا اقدام اسمبلیوں سے استعفیٰ کا چاہئے جب تک یہ قدم نہیں اٹھاتے انکو سنجیدہ نہیں لیا جائے گا، یہ شک رہے گا کہ پی پی اور ن لیگ بارگنگ پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہی ہیں
مبشر لقمان نے سوال کیا کہ میاں صاحب نے دھواں دھار تقریر کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف،اس سے دو راتیں پہلے انکے اپنے بھائی اور دیگر رہنما رات کے اندھرے میں اسٹیبلشمنٹ کو مل رہے تھے، یہ کس قسم کی سیاست ہے،جس پر سلیم صافی کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں انکی طرف سے دعوت دی گئی تھی، اور وہ گلگت بلتستان کے نیشنل سیکورٹی کا بھی معاملہ ہے، اسکی حساسیت کو آپ بھی بہتر جانتے ہیں لیکن وہاں پر بھی سیاست سے متعلق بات ان لوگوں کی جانب سے چھیڑی گئی، پی پی کے ایک لیڈر کی طرف سے ،معاملہ سیاست کی طرف چلا گیا اور پھر انکو خوب سننی پڑی، اس طرح کی ملاقات پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، پچھلے دو سالوں میں بھی،الیکشن سے پہلے اور بعد میں ان دونوں جماعتوں کی خفیہ ملاقاتیں جاری رہیں، صرف شہباز شریف کا نام لیا جاتا ہے لیکن خواجہ آصف بھی رابطہ میں رہتے تھے ،پی پی میں بھی ہمہ وقت یہ چیزیں جاری رہتی ہیں، دو سال کی پی پی اور ن لیگ کی سیاست کا خلاصہ نکالنا چاہیں تو یہ ہیں کہ وہ ان سے یہی کہتے ہیں کہ آپ کی خدمت عمران خان اچھی نہین کر سکتا انکی جگہ ہم اچھی کر سکتے ہیں، اچھی تابعداری کر سکتے ہیں، یہ انکی سیاست کا لب لباب ہے، ابھی نواز شریف نے جو بیانیہ اپنایا ہوا ہے یہ پہلی بار نہیں، ماضی میں عمران خان نے اس سے بھی سخت باتیں کیں لیکن سوال یہ ہے کہ پھر آپ عمل کیا کرتے ہیں، ماضی میں بھی یہ غلطی ہوئی کہ آپ کی پارٹی ہے مسلم لیگ ،آپ کا جانشین ہے آپ کا بھائی شہباز شریف،اور ملک ہے پاکستان، اور آپ طیب اردگان بننے کی کوشش کرتے ہیں، میرے خیال میں تو اسوقت بھی یہی ہوا، جو بیانیہ لندن میں بیٹھ کر اپنا لیا،کیا آپ کی بیٹی کے سوا آپ کی پارٹی میں کوئی اور اسکو لے کر چلنے کے قابل ہے؟ کتنے دیر اس پر کھڑے رہ سکیں گے، یہ انکی قرارداد اور تقریروں میں اگر سنجیدہ ہیں تو پہلا قدم پی پی کو استفوں کا اٹھانا چاہئے اور نواز شریف کو وطن واپسی کا اٹھانا چاہئے، تقریر کا خلاصہ ہے کہ کشتیاں جلانا چاہتے ہین پھر کشتیاں جلا دیں.
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ میری اطلاع ہے کہ نواز شریف نے امریکہ اور انکے حامیوں کو یقین دہانی کروائی کہ ہم سی پیک کو روک دیں گے،گوادر کو روک سکتے ہیں اگر آپ ہمیں واپس لے آئیں تو، سلیم صافی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں نواز شریف اور زرداری کے ساتھ کچھ ہوا اس میں انکی دیگر غلطیوں کے علاوہ ایک بڑا فیکٹر یہ بھی تھا کہ پاکستان کا سٹریٹجک رخ امریکہ سے موڑ کر چین اور روس کی طرف موڑ دیا تھا، اب تو کریڈٹ لینے والے بہت ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سی پیک کے لئے آصف زرداری نے راہ ہموار کی، منصوبہ چین کا تھا، ایم او یو آصف زرداری کے دور میں سائن ہوا، اور گوادر کو ان سے لے کر ہانک کانگ سے چین کے حوالہ کرنے کا رسک انہوں نے لیا، اس میں انہوں نے کچھ ذاتی دوستوں ملک ریاض اور عقیل ڈھیڈی کو بھی استعمال کیا،یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جب وہ روس جا رہے تھے تو ہیلری کلنٹن نے فون کر کے دھمکی دی تھی اسکے باوجود زرداری صاحب گئے، نواز شریف کا یہ تھا انہوں نے پھر ایسا لگ رہا تھا کہ سارے انڈے چین کے باسکٹ میں ڈال دیئے سی پیک کے بارے میں جو بھی چینی چاہتے تھے کر رہے تھے، ہمارا اعتراض تھا کہ سی پیک پر بارگننگ نہیں کی، اسکا رخ بلوچستان،کے پی یا محروم علاقوں کو زیادہ مستفید کروانے کی بجائے نواز شریف نے میجر روٹ کا رخ پنجاب کی طرف موڑ دیا، لیکن جو چینی اس معاملہ میں جتنا زرداری اور نواز شریف، شہباز سے خوش ہیں، ماضی میں آپ جانتے ہیں کہ عمران خان نے کچھ غلطیاں کی تھیں، ماضی میں ،پرویز خٹک نے تقریریں کیں،دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ بھی ملتوی ہوا،ماضی میں وہ سی پیک پر تنقید کرتے رہے، حکومت میں آنے کے بعد احتساب کے نام پر سی پیک کے منصوبوں پر اثر پڑا،رزاق داؤد کا بیان اور یہ ساری چیزں سامنے ہیں، ان حالات میں میں نہیں سمجھتا اور ابھی بھی یہ کیس جو اس روز دونوں نے پیش کیا وہ یہی تھا کہ عمران خان کو الزام دے رہے تھے کہ انہوں نے سی پیک کو سلو کر دیا،اور یہ حقیقت بھی ہے کہ انہوں نے مس ہینڈلنگ کی، میں سازشی تھیوری پر یقین نہین کرتا کہ امریکہ نواز شریف کو آگے لائے گا کیونکہ جس طرح نواز شریف نے اپنی زیادہ تر سیاست سی پیک پر کی آگے جا کر بھی وہ اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کریں گے
مبشر لقمان نے کہا کہ مجھے یہ سمجھ آئی کہ سٹیٹس کو پر ہی چلے گا، یہ اپوزیشن روتی رہے گی،ٹویٹر اور فیس بک پر کھیلے گی، حکومت بھی چلے گی، کچھ نہیں ہونے والا جس پر سلیم صافی کا کہنا تھا کہ یہ آگے جا کر وقت بتائے گا،ابھی بھی یہ اپوزیشن بنے ہیں، عمران خان صاحب سیاست کر ہے تھے 90 سے اور اسوقت وہ زیادہ غیر متنازعہ تھے، مقبول بھی تھے، اسوقت جہانگیر ترین، رزاق داؤد، زلفی بخاری اور اس طرح کے لوگ ارد گرد نہیں تھے، لیکن اسوقت انکو وزارت عظمیٰ کے لئے کنسڈر نہیں کیا گیا، 2012 میں قومی لیڈر بنانے اور 2018 میں وزیراعظم بنانے کے لئے کنسڈر کیا گیا، جو کچھ زرداری، اور نواز نے اداروں کی بدترین گورننس کی صورت اور اداروں سے پنگے بازی کی صورت میں، اسکی برکت سے عمران خان وزیراعظم بنے، اب اپوزیشن یا ٹکراؤ کی جانب جائیں گے تو اسکا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے، جب تھوڑے سے معاملات بہتر ہوتے ہیں عمران خان سمجھتے ہیں تو پھر یہ انکی رخصتی کی علامت ہو گی، ہو سکتا ہے کہ نیب اور عمران خان اگر اسی رفتار سے چلتے رہیں تو ایک سٹیج آ سکتا ہے کہ پی پی اور ن لیگ حقیقی اپوزیشن بن جائیں. مولانا فضل الرحمان کی صورت میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے والی مذہبی قوت انکے ساتھ ہو گی، قوم پرست بھی انکے ساتھ ہوں گے،