اوچ شریف : ٹرانسپورٹ مافیا کا راج،کئی مقامات پر غیر قانونی اڈے قائم

اوچ شریف،باغی ٹی وی (نامہ نگار حبیب خان) اوچ شریف میں کئی مقامات پر ٹرانسپورٹ کے غیر قانونی اڈے، ٹرانسپورٹ مافیا کی اجاہ داری، متعلقہ اداروں کی چشم پوشی کے باعث اوچ شریف کا اکلوتا جنرل بس اسٹینڈ ویران ہو کر رہ گیا۔

تفصیلات کے مطابق اوچ شریف میں ٹرانسپورٹ مافیا نے علی پور روڈ، غوث الاعظم چوک، کے ایل پی روڈ، خیر پور ڈاہا روڈ پر جگہ جگہ غیر قانونی اڈے قائم کر دیے ہیں جو قومی خزانے کو سالانہ لاکھوں روپے کا نقصان دینے کے علاوہ سیکیورٹی مسائل اور ٹریفک جام کرنے کا باعث بن رہے ہیں،

مذکورہ غیر قانونی ٹرانسپورٹ اڈوں پر راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور اور کراچی جانے والی بسوں کے مسافروں سے کرائے کے علاوہ فی سواری 200 روپیہ کمیشن وصول کیا جاتا ہے، ان غیر قانونی اڈوں پر نہ ہی کوئی واش روم ہوتا ہے اور نہ ہی پینے کے لیے ٹھنڈے پانی کا کوئی انتظام، سڑک کنارے ایک چھوٹا کاؤنٹر اور ایک کرسی رکھ کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔

سجادہ نشین درگاہ قادریہ غوثیہ عالیہ و بلدیہ اوچ شریف کے پہلے منتخب چیئرمین مخدوم الملک مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانی نے عوام کی فلاح و بہبود اور پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے درپیش مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے 13 اکتوبر 1976ء کو احمد پور شرقیہ روڈ پر واقع اپنی زیر ملکیت 15 کنال 19 مرلے قیمتی اراضی جنرل بس اسٹینڈ کے لیے وقف کی تھی،

1980ء کی دہائی میں حکومت کی طرف سے لاکھوں روپے مالیت سے جنرل بس اسٹینڈ کی خوبصورت عمارت تعمیر کرائی گئی تھی، تاہم دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آج یہ خوبصورت عمارت تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو گئی ہے،

ماضی میں سالانہ لاکھوں روپے آمدنی دینے والا جنرل بس اسٹینڈ جگہ جگہ غیر قانونی ٹرانسپورٹ اڈوں، ٹرانسپورٹ مافیا کی اجاہ داری اورڈسٹرکٹ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی چشم پوشی و مقامی انتظامیہ کی غفلت کے سبب ویران ہو کر رہ گیا ہے۔ دیکھ بھال ننہ ہونے کی وجہ سے عمارت کی کھڑکیاں اور دروازے لوگ اکھاڑ کر لے گئے، چار دیواری منہدم ہونے کی وجہ سے قریبی آبادیوں کے لوگوں نے اسٹینڈ سے راستے بنا لیے ہیں،

عوامی وسماجی حلقوں نے ڈپٹی کمشنر بہاول پور اور سیکرٹری ڈسٹرکٹ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی بہاول پور سے جنرل بس اسٹینڈ اوچ شریف کی دوبارہ بحالی کر کے اس کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے اور شہر میں غیر قانونی ٹرانسپورٹ اڈے ختم کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

Leave a reply