اوچ شریف ،باغی ٹی وی(نامہ نگارحبیب خان) چمک کا کمال یا سیاسی پریشر،محکمہ انہار اور ریلوے کی مبینہ سرکاری اراضی بارے تحصیل و مقامی انتظامیہ کا آپریشن فلاپ فلم ثابت ہوگیا، نہر عباسیہ لنک کینال کے کنارے پر من پسند، سفارشی اور راشی قابضین تاحال موجود، چھپڑے، پھٹے، اور خیمہ زن غریب دیہاڑی دار طبقہ کو اکھاڑ پھینکا گیا، خالی ہونے والی جگہ پر قبضہ مافیا ایک بار پھر متحرک، راتوں رات کروڑوں مالیتی سرکاری اراضی پر پنجے گاڑنا شروع، پولیس و ذمہ دار ادارے مبینہ مال لیکر خاموش تماشائی،سرکاری اراضی پرقبضہ اور اس پر حکومتی اداروں کی مجرمانہ خاموشی بارے وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور کمشنر بہاولپور فوری نوٹس لیں، شہری
مبینہ بااثر اور سیاسی آشیرباد کے حامل قبضہ مافیا نے محکمہ ریلوے اور محکہ انہار کی اراضی سمیت دیگر اہم سرکاری محکموں کی اراضی پر قبضہ کرکے عوام کے بنیادی حقوق سلب کر رکھے ہیں، اس مافیا میں زیادہ تر جرائم پیشہ افراد شامل ہونے کی اطلاعات ہیں، جنہیں بااثر اور سیاسی شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے، جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائیوں سے گریز کیا جاتا ہے متعلقہ حکام اول تو قبضہ مافیا کی سرگرمیوں کی طرف سے چشم پوشی اختیار کرلیتے ہیں جب کہ عوامی دباؤ پر محض خانہ پوری یا کاغذی کارروائی کے طور پر بڑے آفیسرز کو رپورٹس میں سب اچھا پیش کردیا جاتا ہے،
قبضہ مافیا کے بعض گروپوں کو با اثر سیاسی جماعتوں کے کارندوں اور سیاست دانوں کے چمچوں کی سر پرستی بھی حاصل ہے، کیوں کہ اس مافیا کے کارندے سیاسی جماعتوں کی ریلیوں جلسے اور جلوسوں میں ان کے پرچم اٹھائے شریک ہوتے ہیں اور ان جماعتوں کو مبینہ طور پر فنڈز بھی مہیا کرتے ہیں ان کی سیاسی خدمات کے عوض سیاسی شخصیات اور انکے چیلے قبضہ گروپوں کو مکمل طور سے مدد فراہم کرنے بارے انکشاف ہوا ہے،
ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بھتہ خور مافیا بھی باقاعدگی سے منتھلی لیتے ہیں اور قبضہ مافیا نے بجلی چوری کروانے کے ساتھ ساتھ سرکاری زمین پر تعمیرات کرنے والوں کو بھی خفیہ سپورٹ کررکھی ہے، خاص طور بیورو کریسی بھی ان کے معاملات سے چشم پوشی اختیار کرنے پر مجبور بتائی جاتی ہے،
اس بابت جب متعلقہ تحصیلدار منور شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سرکاری املاک پر سے تمام قبضے ختم کروانے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے ان محکموں کو سامنے آنا ہوگا کہ جن کی اراضی پر قبضہ ہوچکا ہے انہوں نے کہا کہ اگر محکمے انہیں آگاہی فراہم کریں کہ ان کی مجموعی طور پر کتنی اراضی ہے اور کتنی اراضی پر قبضہ ہے تو پھر انتظامیہ کے لیے آسانی ہوسکتی ہے