اوچ شریف باغی ٹی وی ( نامہ نگار حبیب خان) آج بھی شہداء اے پی ایس کا غم دلوں میں زندہ ہے، ہمارے شہید بچے ہمیں عزیز ہیں، اوچشریف کے سینئر ورکنگ صحافیوں کا مشترکہ بیان-
تفصیل کے مطابق اوچ شریف کے سینئر ورکنگ جرنلسٹ احمد حسن اعوان، ڈاکٹر ضیاء الحق بڈانی، سید مجتہد رضوی، اظہر علی دانش، خواجہ غلام شبیر، حبیب اللہ خان، صدیق خان سودھا، عامر غنی خان لنگاہ، شمس خان رند، ملک یعقوب ککس اور ملک آمین سمیت دیگر صحافیوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس ) کے دردناک سانحے کو 9 برس بیت گئے مگر ملک پاکستان کے افسوسناک ترین سانحے کا غم آج بھی تازہ ہے ۔
شہداء کے لواحقین تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔کل اے پی ایس کے المناک سانحے کی نویں برسی منائی جارہی ہے ، اس حوالے سے اوچ شریف سمیت ملک بھر میں تقریبات کا انعقادہوگا؛سانحہ میں شہادت کا رتبہ پانے والوں کیلئے فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی بھی کی جائے گی اور شہدا کے لیے مغفرت کی دعائیں مانگی جائیں گی،
خیال رہے کہ 16 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہے جب ایک بار 16 دسمبر 1971 کو ملک دو لخت ہوا اور دوسری 16 دسمبر کو کتنی ماؤں کے لختِ جگر جُداہوئے۔ 16 دسمبر 2014ء کو اے پی ایس کا وہ سانحہ رونما ہوا جس نے ایک عالم کو غم و الم میں مبتلا کردیا۔ حیوانیت اور درندگی کی یہ انتہا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔
اس سانحے میں 8 سے 18 سال کے پھول جیسے بچے بربریت کا نشانہ بنے، ان معصوموں کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے اس وقت اپنے ظلم کا نشانہ بنایا جب وہ اسکول میں حصولِ علم میں مشغول تھے۔سانحے میں طلباء اور اسکول اسٹاف سمیت 141شہید ہوئے اور چھ کے چھ دہشت گرد جہنم واصل ہوئے جب کہ 121 بچے شدید زخمی ہوئے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ بد ترین دہشت گردی کی کارروائی ہے، جو 2007ء کراچی میں سانحہ کارساز کے بعد ہوئی۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اے پی ایس کا سانحہ پاک فوج کے مشہور آپریشن ضرب عضب کا رد عمل تھا جو پاک فوج نے 8 جون 2014ء کو کراچی ائرپورٹ پر حملے کے بعد دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے شروع کیا تھا۔ اس سانحے نے قوم کو دہشت گردی سے لڑنے کا ایک نیا جذبہ دیا