او آئی سی اجلاس میں حماس رہنماوں کو بھی بلایا جائے، مولانا فضل الرحمان

مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کا جو موقف قیام پاکستان سے پہلے تھا وہی موقف اب بھی ہے
0
162

‏اسلام آباد: سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کا جو موقف قیام پاکستان سے پہلے تھا وہی موقف اب بھی ہے ۔

باغی ٹی وی: جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے غیر ملکی میڈیا کے نمائندہ گان سے ملاقات کے دوران کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کا جو موقف قیام پاکستان سے پہلے تھا وہی موقف اب بھی ہے ،قائد اعظم نے اقوام متحدہ کی تجویز کو مسترد کیا اور امریکی صدر کو خط لکھا کہ فلسطین کو دو ریاستی تصور کے ساتھ قبول نہیں کرسکتے ،فلسطین کی سرزمین کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا ۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینی حالت جنگ میں ہیں جنگ میں کوئی بھی اقدام کیا جاسکتا ہے ،امریکہ برطانیہ براہ راست فلسطین میں اپنی فوجیں لے آیا ہے ،حماس کے مجاہدین کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ براہ راست غزہ شہر پر حملے کیے جا رہے ہیں ،ہسپتالوں سکولوں پر حملے ہو رہے ہیں ،اسرائیلی کو جنگی مجرم قرار دے جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے ۔

فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی نہیں ہونی چاہیے،امریکی وزیر خارجہ

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قضیہ فلسطین کے براہ راست فریق فلسطینی ہیں ان کے بغیر کوئی حل ممکن نہیں ، مسلم اُمّہ اپنے بھائیوں کے ساتھ اس طرح نہیں کھڑے جس طرح مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ، آج انسانیت کا قتل ہورہا ہے بچوں بوڑھوں اور خواتین کو قتل کیا جا رہا ہے کیا اس کے بعد بھی انسانی حقوق کا علمبردار کہا جائے گا ، کیا ان کو یاد نہیں کہ نازیوں نے ان کا کیسے قتل عام کیا کیا اس کا بدلہ فلسطینیوں سے لیا جائے گا ۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب بکھر گیا اب دنیا کو سوچنا ہوگا ایک اور زاویہ سے ،اسرائیل اس خطے میں فرعون کے جانشین ہیں ،موسی کے جانشین فلسطینی ہیں ،ہم نے مطالبہ کیا کہ او اوئی سی کا سربراہی اجلاس بلایا جائے ،سعودی عرب نے اجلاس طلب کیا ان کا شکر گذار ہوں ، فلسطینی قیادت کا بھی مطالبہ تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے ۔

فلسطین کی حمایت میں ریلی،یہودی شخص کی جھگڑے میں موت

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اس میں حماس کے نمائندوں کو دعوت دی جائے ان کے بغیر یہ اجلاس نامکمل ہے ،جے یو آئی کا اوّل روز سےموقف فلسطینیوں کی حمایت کا رہا ہے ،پشاور کوئٹہ اور کراچی میں بڑے جلسے کئے ،امریکہ میں برطانیہ فرانس یورپ میں مظاہر ے ہوئے ہیں ،ان کو بھی عوام کا احترام کرنا ہوگا ورنہ جمہوریت کی بات چھوڑ دیں ۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اگر بند کمروں میں فیصلے کرنے ہیں تو پھر عوام کی کوئی حیثیت نہیں ،انڈیا کی میڈیا پر تعجب ہے کہ ان کو اتنی تکلیف کیوں ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اب پر حملہ کیا ہے ،اگر اپنی سرزمین کو حاصل کرنے کی جدوجہد دہشت گردی ہے تو پھ گاندھی جی کی جدوجہد کو کیا نام دیں گے ،کیا یہ حق فلسطین کو نہیں دیں گے جن کے زمین پر قبضہ ہے ؟ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور رہے گا ۔

فلسطینی صدر محمود عباس کے قافلے پر حملہ،ویڈیو

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ تحریکوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہے گا ،ہم جو حق اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں وہ فلسطینیوں اور افغانوں کے لئے بھی جائز سمجھتے ہیں ،جو آزادی کی جنگ لڑتا ہے کاج اس کو دہشت گرد کہا جاتا ہے ؟ پاکستان نے اقوام متحدہ میں جو موقف اختیار کیا ہے اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ،ہم سیاسی لوگ ہیں جو موقف فلسطین کے حوالے سے الیکشن سے پہلے ہے وہی الیکشن کے بعد بھی ہوگا ،نگران وزیر اعظم نے جو دو ریاستی تصور پیش کیا وہ قائد اعظم کے تصور کی نفی ہے ۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فلسطین نے پاکستان کے موقف کو جراتمندانہ کہا اور کہا کہ وہ قیادت کرے،برطانیہ سپر طاقت تھا امریکہ نے اس کی جگہ لینی تھی ۔اقوام متحدہ کا دفتر امریکہ میں تھا ،پاکستان نے اس وقت بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی اور قیام پاکستان کے بعد ،حماس کے حوالے سے کمزور پہلو کو تلاش کیا جارہا ہے کیا اس کا سیاسی پہلو نہیں-

اسرائیلی حملوں میں 2 لاکھ سے زائد عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا

انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی دنیا کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں مزاحمتی تحریک کے ختم ہونے کا تصور ختم ہوگیا اگر امریکہ وزیر خارجہ ان کی حمایت کو کھلم کھلا آتا ئے تو کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم ان کی حمایت کریں ،کارگل پر حملہ کیا تو کیا دنیا سے پوچھا تھا یہ سیکرٹ ہوتا ہے ،دنیا کو یہ میسج چلا گیا کہ فیصلہ فلسطینی کریں گے کسی اور کو یہ حق نہیں۔

Leave a reply