اوکاڑہ: جنگلات کی بربادی ، قدرتی خزانے کے ضیاع کی داستان
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
ہم بحیثیت قوم وقت کا ضیاع اور وسائل کا صحیح استعمال نہ کرنا ہماری رگوں میں خون کی طرح شامل ہے۔ سرکاری اداروں کے ساتھ پبلک ریلیشن شپ نہ ہونے کی وجہ سے آج ہماری قوم نہ صرف مقروض ہے بلکہ آنے والی نسلیں بھی مقروض پیدا ہوتی رہیں گی۔
آج ہم آپ کو اوکاڑہ کی سطح پر وسائل ہونے کے باوجود منصوبہ بندی نہ کرنے کے حوالہ سے محکمہ جنگلات پر بات چیت کرتے ہوئے یہ بتائیں گے کہ کس طرح ہم درختوں کے حوالہ سے فوائد حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ضلع اوکاڑہ قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ زرخیز زمین، وسیع نہری نظام، سازگار موسمی حالات اور بہترین آبی وسائل اس بات کے گواہ ہیں کہ یہاں جنگلات کے فروغ کی بے پناہ گنجائش موجود ہے، مگر افسوس کہ نہ حکومتی سطح پر سنجیدگی دکھائی گئی اور نہ ہی عوامی سطح پر شعور پیدا کیا جا سکا۔
آج دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیاں تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ درخت اور جنگلات ہی وہ قدرتی ذریعہ ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے ماحول کو متوازن رکھتے ہیں، زمین کو بنجر ہونے سے بچاتے ہیں اور ہزاروں مخلوقات کے لیے مسکن مہیا کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اوکاڑہ جیسے زرعی ضلع میں جنگلات کے فروغ کو کبھی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں کیا گیا۔
سال 2019/20 میں محکمہ جنگلات کی جانب سے اوکاڑہ میں ایک نئی امید کا چراغ روشن ہوا۔ اس وقت کے ایس ڈی او افتخار احمد جنجوعہ کی قیادت میں نہروں اور راجباہوں کے کناروں پر درخت لگانے کا ایک شاندار منصوبہ شروع ہوا۔ ان کی ٹیم نے لاکھوں درخت لگائے۔ یہ نہ صرف محکمانہ کارکردگی کی ایک مثال تھی بلکہ ایک عزم اور جذبے کی داستان بھی تھی۔ افتخار احمد جنجوعہ اور ان کی ٹیم کو بجا طور پر خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے نہ صرف منصوبے کو عملی جامہ پہنایا بلکہ ایک نئی راہ بھی دکھائی۔
مگر بدقسمتی سے افتخار احمد جنجوعہ کی ٹرانسفر کے بعد یہ منصوبہ بھی روایتی بدانتظامی اور کرپشن کی نذر ہو گیا۔ نہ صرف نئے درخت لگانے کا عمل رک گیا بلکہ پہلے سے لگے درختوں کی دیکھ بھال بھی چھوڑ دی گئی۔ نتیجتاً مقامی بااثر افراد اور زمینداروں نے محکمانہ ملی بھگت سے اربوں روپے مالیت کے درخت چوری کر کے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا۔
تحصیل دیپالپور کے مقام پپلی پہاڑ پر جنگلات کی کٹائی آج بھی جاری ہے۔ سرکاری اہلکاروں کی چشم پوشی اور بدعنوان عناصر کی سرپرستی میں سرسبز درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ یہ قومی اثاثہ ضائع ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اوکاڑہ میں وسیع نہریں، راجباہ اور کھالوں کا جال موجود ہے، جو سارا سال پانی مہیا کرتے ہیں۔ پانی کی دستیابی کے باوجود درخت لگانا حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جسے درست منصوبہ بندی اور نیک نیتی سے بروئے کار لایا جائے تو اوکاڑہ پورے پنجاب میں جنگلات کا ماڈل ضلع بن سکتا ہے۔
اگر حکومت سنجیدہ ہے تو فوری طور پر درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:
* درختوں کی چوری میں ملوث عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
* محکمہ جنگلات کو فعال کیا جائے اور مستقل نگرانی کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔
* سرمایہ کاروں کو سہولیات دے کر جنگلات کے فروغ میں شریک کیا جائے۔
* عوام میں درختوں اور جنگلات کی اہمیت پر شعور اجاگر کیا جائے۔
* مقامی نوجوانوں کو جنگلات کی حفاظت اور نگہداشت کے لیے بھرتی کیا جائے تاکہ غربت اور بے روزگاری میں کمی آئے۔
اوکاڑہ میں جنگلات کی بربادی صرف سرکاری نااہلی کی ایک مثال نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل سے کھلواڑ ہے۔ افتخار احمد جنجوعہ جیسے دیانتدار اور فرض شناس افسران کی محنت اور لگن ضائع نہ ہونے دی جائے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ جنگلات کے فروغ کو صرف ماحولیاتی ضرورت نہیں بلکہ معاشی استحکام کے مضبوط ستون کے طور پر لیا جائے۔ اگر ہم نے آج بھی آنکھیں نہ کھولیں تو کل ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
عوامی آگاہی کے لیے آج ہی اپنا کام شروع کرنا ہوگا۔ ہر پڑھے لکھے شخص کا یہ قومی فریضہ ہونا چاہئے کہ وہ درخت لگانے کی مہم میں صدقہ جاریہ سمجھ کر شامل ہو اور لوگوں کو آگاہ کرے کہ درخت کتنے ضروری ہیں۔
برسات کا موسم جولائی میں شروع ہو جاتا ہے، جو کہ درخت لگانے کا ایک اچھا موسم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فروری مارچ بھی درخت لگانے کا اچھا موسم ہے۔ علاقائی آب و ہوا میں پلنے والے درخت لگانے چاہئیں۔ اوکاڑہ میں نیم، پیپل، بکین، شریں، جامن، بیری، شیشم، کیکر، آم، لسوڈا اور اس طرح کے کئی ایک درخت لگائے جا سکتے ہیں۔








