بلاسود قرض کے نام پر آن لائن لوٹ مار، شہریوں کی زندگیاں تباہ، ریاستی ادارے محض تماشائی
(اوچ شریف سے باغی ٹی وی کےنامہ نگار حبیب خان کی خصوصی رپورٹ)پاکستان میں بلاسود اور فوری قرض کی سہولت کے نام پر جاری آن لائن جعلسازی کی وارداتیں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ سوشل میڈیا اور موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے غریب، ضرورت مند اور پریشان حال شہریوں کو لوٹنے کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ یہ معاملہ اب خودکشیوں تک جا پہنچا ہے۔ ایف آئی اے اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی تحقیقات اور انتباہ کے باوجود عملی اقدامات اب تک خواب ہی ہیں۔
12 جولائی 2023 کو ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کراچی نے شہریوں کی شکایات پر 8 جعلی قرض دہندہ ایپس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جن میں ایزی لون، آسان قرضہ، ضرورت کیش، منی باکس، ادھار پیسہ، بروقت، لون کلب اور اسمارٹ قرضہ شامل تھیں۔ ان کا طریقہ واردات نہایت سفاک تھا، موبائل ایپس پر اشتہارات دے کر لوگوں کو قرض کی پیشکش کی جاتی، ایپ ڈاؤن لوڈ کرتے ہی خودبخود رقم اکاؤنٹ میں ڈال دی جاتی اور پھر اصل رقم سے کئی گنا زیادہ واپس مانگنے کا عمل دھونس، گالیاں اور بلیک میلنگ کے ساتھ شروع ہو جاتا۔
ایف آئی اے کے مطابق یہ ایپس صارف کے موبائل ڈیٹا، سوشل میڈیا اور گیلری تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں اور پھر متاثرہ افراد کے دوست احباب کو فحش پیغامات بھیج کر دباؤ بڑھاتی ہیں۔ کئی افراد نے قرض کی رقم واپس نہ کرنے پر سماجی بدنامی، دھمکیوں اور بلیک میلنگ کا سامنا کیا اور راولپنڈی کے رہائشی محمود مسعود جیسے کئی افراد ذہنی اذیت کے باعث خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے۔
مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ 22 مئی 2025 کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق ایس ای سی پی نے 141 جعلی قرض ایپس کی نشاندہی اور ان کے خلاف کارروائی کے باوجود خبردار کیا ہے کہ جعلساز اب فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دھوکہ دہی کے نئے طریقے اپنا چکے ہیں۔ جھوٹے اشتہارات میں معروف اداروں کے نام استعمال کر کے عوام کو جھانسہ دیا جا رہا ہے، جن میں ’بغیر سود فوری قرض‘ جیسے نعرے شامل ہیں۔ متاثرہ شہریوں سے رجسٹریشن، انشورنس یا اکاؤنٹ ویریفکیشن کے نام پر ایڈوانس رقم یا ذاتی معلومات لے کر جعلساز غائب ہو جاتے ہیں۔
ایس ای سی پی نے واضح کیا ہے کہ صرف لائسنس یافتہ اور منظوری شدہ قرض فراہم کرنے والی کمپنیوں کی فہرست اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور عوام کو سختی سے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ غیر تصدیق شدہ ذرائع سے کسی بھی قسم کا قرض نہ لیں اور اپنی ذاتی معلومات کسی ایپ یا اشتہار کو نہ دیں۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ آخر کب تک یہ اعلانات اور انتباہات کافی سمجھے جائیں گے؟ جب ریاستی ادارے تحقیقات اور فہرستوں سے آگے بڑھ کر مؤثر اور تیزرفتار قانونی اقدامات نہیں کریں گے، تب تک یہ سودی اور بلیک میلنگ پر مبنی آن لائن قرض مافیا ہر روز کسی نہ کسی شہری کی زندگی کو برباد کرتا رہے گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کو جعلی ایپس، ان کے طریقہ واردات اور ملوث افراد کا علم ہے تو پھر اب تک عملی طور پر کتنے مجرم گرفتار اور کتنی ایپس بلاک ہو چکی ہیں؟ ریاستی خاموشی اور سست روی کا یہ عالم نہ صرف عوامی اعتماد کو مجروح کر رہا ہے بلکہ ڈیجیٹل پاکستان کے خواب کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
آخر کب تک ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ ان غیرقانونی قرض ایپس کی آڑ میں عوام کو رسوا، ذلیل و خوار کرنے اور بلیک میلنگ کے ذریعے خودکشیاں کروانے کا سلسلہ کب تھمے گا؟ جب تک متعلقہ حکومتی ادارے خاص طور پر ایف آئی اے، پی ٹی اے اور اسٹیٹ بینک اپنی آئینی و اخلاقی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے، تب تک یہ ایپس معصوم شہریوں کو نشانہ بناتی رہیں گی۔
اگر اب بھی کارروائی نہ ہوئی تو ہر نئی خودکشی کا الزام صرف ان بلیک میلرز پر نہیں بلکہ اُن اداروں پر بھی ہوگا جنہوں نے مجرمانہ چشم پوشی سے ان کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس المیے کا نوٹس لیا جائے، ذمہ داروں کا تعین ہو اور ان خونی کاروبار کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے، ورنہ کل کوئی اور مجبور انسان اسی خاموشی کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔