اور عمران خان جھک گئے، تحریر: نوید شیخ

آخر کار وہ خبر آگئی ہے جس کے بعد کپتان ، حکومت ، وزیروں اور مشیروں کے دل کی دھڑکن تیزی سے مزید تیز ہوتی جارہی ہے ۔ اس وقت اپوزیشن اپنی کاری ضرب لگانے کو مکمل تیار ہے ۔ کیونکہ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کرلیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر 80 سے زائد اپوزیشن اراکین کے دستخط ہیں جس میں پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی، اے این پی، بی این پی مینگل اور دیگر جماعتوں کے ارکان نے دستخط کیے ہیں۔ اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی تیارکر رکھی ہے۔ یوں تحریک عدم اعتماد اور اجلاس کے لیے ریکوزیشن کسی بھی وقت جمع کروائی جا سکتی ہے جس کے لیے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے چیمبر کو بھی الرٹ کردیا گیا ہے۔

۔ اپوزیشن کے اس تیار کیے گئے مسودے میں کہا گیاہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اورغیریقینی صورتحال ہے۔ خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے جب کہ قائد ایوان اس ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھوچکے ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں قائد ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ہے۔۔ رانا ثنااللہ توبڑےconfidence سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ کیونکہ چوہا رپورٹس ہیں کہ اپوزیشن نے حکمران جماعت کے 24 ارکان کی حمایت حاصل کرلی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کو 16 پیپلز پارٹی کو 6 اور جے یو آئی کو 2 حکومتی ارکان نے ہاں کہہ دی ہے۔ یقینی طور پر انھوں نے آئندہ جنرل الیکشن میں ٹکٹ کے بدلے ووٹ اپوزیشن کو دینے کے لیے حامی بھری ہوگی اب اگر یہ چوبیس لوگ اپوزیشن کے ساتھ چلتے ہیں تو عمران خان کا گھر جانا یقینی ہے کیونکہ نمبر گیم میں حکومت کو 17
ووٹوں کی برتری ہے ۔ پر ان چوبیس لوگوں کی بدولت نمبر گیم میں اپوزیشن اوپر آجائے گی اور ساتھ اگر حکومتی اتحادی اپوزیشن کا ساتھ نہ بھی دیں تو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونا ناممکن نہیں ۔ ۔ اپوزیشن نے مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی سے دوبارہ بھی رابطے کیے ہیں۔ ان تینوں جماعتوں کے کل 17 ارکان ایوان میں موجود ہیں صرف ان تینوں جماعتوں کا ساتھ بھی مل گیا تو اپوزیشن کو ایوان میں سادہ اکثریت سے زیادہ ووٹ مل جائیں گے۔

۔ اس حوالے سے بلاول بھٹو تو بہت ہی زیادہ پراعتماد دیکھائی دیتے ہیں انھوں نے تو آج وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے پانچ دن کی مہلت تک دے دی ہے ۔ کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ہمارے نمبر پورے ہو چکے ، ایوان میں ہر ایم این اے عدم اعتماد میں ہمارے ساتھ ہے۔۔ یوں اس نئی پیش رفت کے سبب سیاست کے میدان میں خوب تیزی چل رہی ہے ۔ عون چوہدری نے بھی اعلان کر دیا کہ جلد جہانگیر ترین وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔ ۔ پھر طارق بشیر چیمہ کے بعد آج پرویز الہٰی نے کہا دیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں تحریک عدم اعتماد پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ پرویز الہٰی کا کہنا تھاکہ ہانڈی میں سامان چلا گیا دھواں اٹھنے کے بعد پہلا ابالا آتا ہے۔ پہلا ابالا آ جائے پھر آپ کو بتائیں گے۔ اتنی بڑی ہانڈی چڑھی ہے کچھ تو نکلے گا۔۔ صحافیوں کی جانب سے جب پرویز الٰہی سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کا جانب سے بھی وزیراعظم کو گھبرانا نہیں ہے کا پیغام ہے؟ اس پر اسپیکر پنجاب اسمبلی نے قہقہہ لگایا اور کہا عمران خان بالکل بھی گھبرائے ہوئے نہیں ہیں۔ ۔ جبکہ مولانا ہوں یا بلاول یا ن لیگی رہنما سب اس چیز پر بھی متفق دیکھائی دیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر نیوٹرل ہے ۔ کسی کو کوئی فون کال نہیں آرہی ہے ۔ ۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا دکھ لگتا ہے سب سے زیادہ حکومت کو ہے ۔ اس بات کا اندازہ وزیروں کے بیانات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے ۔ جہاں گیٹ نمبر چار کے پرانے کھلاڑی شیخ رشید احمد کوئی سگنل نہ ملنے پر گھبرائے گھبرائے دیکھائی دے رہے ہیں ۔ تو فواد چوہدری اپنے لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ادارے حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں ،نیوٹرل نہیں ہوتے۔ اسی لیے خبریں یہ ہیں کہ حکومت نے اپنی تمام ترامیدیں آئی بی سے وابستہ کر لی ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ جو ناراض لوگ راضی نہیں ہونگے شاید وہ تحریک عدم اعتماد کے روزغائب کردئیے جائیں کیونکہ اس روز ایوان میں اکثریت ثابت کرنا حکومت کی نہیں بلکہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہوگی۔ اس سلسلے میں باخبر زرائع کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کی فہرستیں بن چکی ہیں اور ان پرکڑی نظربھی رکھی جارہی ہے۔ پھر جیسا کہ میں نے آپکو اپنے گزشتہ روز بتایا تھا کہ لندن میں نواز شریف کی دولوگوں سے اہم ملاقات میں اہم معاملات طے ہوگئے ہیں تو ایک روز بعد ہی نواز شریف نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پرگرین سگنل دے دیا ۔

۔ پھر جو دوسری بڑی اور اہم خبر ہے کہ اپوزیشن کے تینوں بڑوں کا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد فوری انتخابات پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی فوری انتخابات کی بجائے آئینی مدت پوری کرنے پر بضد تھی اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی آئینی مدت پوری ہونے کا چارٹر آف ڈیمانڈ دیا تھا۔ ایم کیو ایم اور ق لیگ فوری انتخابات پر راضی نہیں تھیں اور پیپلز پارٹی حکومتی اتحادی جماعتوں کے مؤقف کی حامی تھی۔ تاہم اب اس سلسلے میں معاملہ افہام وتفہیم سے طے ہوگیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں میں ڈیڈ لاک ختم ہو گیا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کو فوری انتخابات پر قائل کر لیا گیا ہے۔۔ اس بات کی تصدیق گزشتہ روز بلاول بھٹو نے جیو ٹی وی کو اپنے انٹرویو میں بھی کردی ہے جس میں انھوں نے کہا کہ آنے والا سیٹ اپ مختصر مدت کا ہوگا، نئے آنے والے سیٹ اپ کا واحد مینڈیٹ شفاف انتخابات ہو گا۔۔ یعنی ملک میں قبل ازوقت الیکشن کا چاند کسی بھی وقت نمودار ہوسکتا ہے ۔ ۔ ویسے عمران خان کی بھاگ دوڑ سے بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ۔ اسی لیے وزیرِ اعظم عمران خان سے مسلم لیگ ق کی قیادت کی آج ایک اور ملاقات ہو گی۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان ق لیگ کے رہنما وفاقی وزیر مونس الٰہی سے ون آن ون ملیں گے ۔ چڑیل کے مطابق شاید کوئی ڈپٹی پرائم منسٹر کی کہانی ہے ۔ کل تو یہ بھی چڑیل نے بتایا تھا کہ عین ممکن ہے کہ اپوزیشن کے پے در پے حملوں کے سبب ایک دو دن میں ہی حکومت پنجاب میں تبدیلی کی نوید سنا دی جائے اور صوبے کی چابیاں ق لیگ کو تھما دی جائیں گے ۔ ۔ دیکھا جائے تو اس وقت عمران خان حکومت بچانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار دیکھائی دیتے ہیں ۔ آپ دیکھیں یک دم حکومت اب پیکا آرڈیننس سے بھی پیچھے ہٹ گئی ہے ۔ ۔ یہ سیاسی منظر اس لئے ابھرا ہے کہ حکومت نے پونے چار برسوں میں وہ وعدے پورے نہیں کئے جو اس نے اقتدار میں آنے سے پہلے کیے تھے کہ اب خوشحالی آئے گی برس ہا برس سے درپیش مسائل سے نجات ملے گی بنیادی انسانی حقوق کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کی جائیں گی۔
۔۔۔ سٹیٹس کو ۔۔۔ کو ختم کر دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

۔ اب جب صورتحال خراب ہوئی ہے۔ عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ آمرانہ طرز عمل سے پورے ملک میں ایک کہرام کی سی کیفیت ہے۔ پہلے حکومت نا نا کرتی رہی ہے ۔ اب ان کو احساس ہوا ہے کہ ان کے پیروں سے تو زمین سرکنے والی ہے ۔ ۔ میں آپکو بتاوں خان صاحب کی آنکھ دیر بعد کھلتی ہے یہ سلسلہ انہیں بہت پہلے شروع کرنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کے ساتھ سیاسی تعلقات کو مضبوط بناتے کچھ ان کی مانتے اور کچھ اپنی منواتے مگر انہوں نے خوشامدیوں کو نوازا باقی ہرکسی کو نظر انداز کیا۔ جب کبھی وہ ناراض ہوئے اور انہوں نے گلے شکوے کیے تو ہمیشہ رعونت سے دیکھا گیا۔ اب جب اپوزیشن والے حکومت کے گلے تک پہنچ گئے ہیں تو حکومت کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اپنے آپ کو بدلہ جائے ۔ ۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ عمران خان اب بھی ان کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے مگر انہیں سمجھایا گیا کہ وہ سیاست کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ صورتحال کو غور سے دیکھا جائے اور اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے لہذا وزیراعظم کو اپنا رخ ادھر ادھر موڑنا پڑا ہے۔ جھکنا پڑا ۔ اپنے آپ کو بدلنا پڑا ۔ ۔ ورنہ انا اتنی بڑھ چکی تھی کہ اتحادی تو دور کی بات اپنے جماعت کے ناراض لوگوں کو کپتان منہ نہیں لگانا چاہتے تھے ۔ الٹا ان کو بھی سبق سیکھنا چاہتے تھے یہاں تک کہ ایک شخص بارے تو ان کی خواہش تھی کہ یہ بھی جیل میں جائے ساتھ اس کا فرزند بھی جیل کی ہوا کھائے ۔ مگر ایسا ہونہ سکا ۔ ۔ مجھے ویسے بہت حیرت ہے کہ صرف چار سالوں میں عمران خان کو اپنی کرسی سے بڑی محبت ہو گئی ہے۔ وگرنہ وہ تو خود جانتے ہیں کہ اب عوام کی خدمت کا وقت گزر چکا ہے۔ ۔ یاد رکھیں جب عوام کے ذہنوں میں کسی حکمران سے متعلق یہ خیال بیٹھ جائے کہ وہ ان سے مخلص نہیں تو پھر اس کے ریلیف کسی کام کے نہیں ہوتے۔ باقی ان کے اردگرد لوگ چاہے اپنی جماعت کے ہوں یا پھر اتحادی وہ ان کا کردار اور اخلاق باخوبی دیکھ چکے ہیں ۔ ۔ یقینی طور پر جب ایمپائر کی جانب سے کوئی پریشر نہیں ہوگا تو یہ سب کپتان کے بارے اپنے تجربات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے ۔ فی الحال یہ تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی یا ناکام ۔ مگر حکومت کی ضرور ہوائیاں اُڑی ہوئی ہیں ۔

Comments are closed.