میں نے آٹے والی پیٹی میں سے گوندھنے کے لیئے آٹا نکالا،اور دیکھا کہ آٹا تو ختم ہونے کے قریب ہے…اور آج کل تو آٹے کی ضرورت بھی زیادہ ہے کیونکہ گھر کے سبھی افراد گھر پر ہیں اور پھر کوئی نہ کوئی مستحق بھی آ جاتا چنانچہ طبیعت کی ناسازی کے باوجود ارادہ کیا کہ چلو آج ایک بوری گندم ہی صاف کر دی جائے تاکہ چکی پر پیسنے کے لیئے بھیجی جا سکے…
چارو نا چار گندم کی بالٹیاں بھر بھر کر صحن میں رکھنا شروع کر دیں،اور چھپی نگاہوں سے سب کو تلاشنا بھی شروع کیا کہ کوئی مدد کو آتا ہے کہ نہیں…
لیکن ظاہر سی بات تھی سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور مجھ مسکین پر کسی نے نظرِ رحم نہ کی اور شاید سبھی میرے کام سے بے خبر تھے…
مجھے دل ہی دل میں بلا کا غصہ آیا کہ بھئی کمال ہے گیمز کھیلنا بہت ضروری ہیں؟
اندر ہی اندر قہقہے بلند ہو رہے ہیں؟؟
ہاں فل آواز میں چولہے کی آواز آ رہی ہے ضرور کوئی ریسیپی تیار ہو رہی ہو گی محترمہ کی؟
وہ تو بس کوکنگ سنبھال کر باہر سے بے فکر…
یہ تو گارلک تکہ اور انڈوں کے حلوہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں…
اور ابھی کوکنگ کے بعد تلاوت و تفسیر کا وقت ہو جائے گا اور میری دلجوئی…؟
اُف میں نے آج اکیلے کیا مصیبت سر ڈال لی ہے وغیرہ؟
غرض خیالات کا سلسلہ اندر ہی اندر  بہہ رہا تھا جو لبوں تک ابھی نہیں آیا تھا  اور وجہ گردے میں درد تھی…
خیر چند ہی لمحوں بعد جب سب نے میری عدم موجودگی کا نوٹس لیا تو سبھی بھاگے آئے کہ آپ کو کیا فکر پڑی تھی کل کر لیتیں،کون سا مجبوری تھی؟؟
اب مجھے سب کے اپنے ہونے کا احساس ہونے لگا تھا…
امی جان نے انڈا ابال کر بھیجا تھا کہ یہ اُسے دے آؤ کھالے…
سسٹر سٹرابری دھو کر لے آئیں…
اور بھائی گندم کی بالٹیاں بھر بھر کر مجھ تک پہنچانے لگے،اور صاف کی ہوئی الگ بوری میں ڈالنے لگے…
چند لمحات پہلے کے خیالات ہوا ہو چکے تھے اب ایک سکون سا گھیرے ہوئے تھا…اُس وقت جو چاہا کہ ذرا چیخ کر سب کو بلاؤں کہ کہاں گئے ہو؟
ایسا نہ کرنے پر فرحت رگوں میں اُتر رہی تھی اور میں نے انہیں یہ محسوس بھی نہ ہونے دیا کہ میں غصہ میں تھی…
سو کام آدھے گھنٹہ میں مکمل بھی ہو چکا تھا کہ نمازِ ظہر کے لیئے اذان کی آواز بلند ہوئی تب میں نے شکر کیا کہ چلو بروقت فراغت ہوئی…اور دل میں اب پھر اک سوال اُبھرا کہ اگر میں ناراضگی کا اظہار کر ہی دیتی تو سب کے دل میں کیا بات جاتی؟
سب کی ہنسی افسردگی میں بدل جاتی اور وہ مدد کرتے ہوئے بھی بوجھل ہو رہے ہوتے…
حالانکہ ہر کام اور ہر لمحہ ساتھ نبھاتے ہیں…!!!
صبح ناشتے کا پراٹھا،انڈا اور چائے کا کپ اُٹھا کر اپنے کمرے میں پہنچی،والدہ محترمہ بہت زبردست پراٹھا بناتی ہیں اور سبھی خاندان والے امی کے پراٹھے یاد کرتے ہیں…لیکن تین دن سے مجھے تو بالکل بھی پسند نہیں آ رہا تھا درمیان سے موٹا اور سائیڈ سے پتلا پراٹھا بھلا یہ کیا اصول ہوا؟
آج تو جا کر امی جان سے شکایت کرتی ہوں کہ جیسے بھی ہو میں ناشتے میں خامی نہیں برداشت کر سکتی…
چنگیر اُٹھا کر کچن میں پہنچی،دل تھا کہ آج تو چنگیر زور سے پٹخ دوں اور ساتھ ہی ایک مرحوم پڑوسی بابا جی بھی یاد آئے جن کو بہو کھانا دے کر آتی تھیں تو وہ اچھی طرح کھانا کھا کر پلیٹ صاف کر کے خالی چنگیر اور پلیٹ دور سے ہی پھینک دیتے جو بعض اوقات کام میں مگن بہو کی پیٹھ پہ آ لگتی وہ بہو اب بھی کبھی ملیں تو یہ دلچسپ آپ بیتیاں سناتی ہیں…
خیر اسی خیال کے آتے ہی چنگیر تو آرام سے شیڈ پر رکھ دی اور ناراضگی میں باہر جانے لگی تو امی جان جو پیڑھی پر بیٹھی تھیں سمجھ کر کہنے لگیں،بچے آج تمہاری روٹی موٹی ہو گئی تھی…پتہ نہیں آٹا ٹھنڈا تھا کہ کیا میں نے تو روٹی بہت دقت سے بنائی ہے…
ہاں جی امی وہ میں فریج میں آٹا رکھ کر نکالنا ہی بھول گئی تھی تو بہت سخت ہوگیا ہوگا معذرت امی جی…
نہیں ذرا دھیان سے نکال دیا کرو کیونکہ صبح تو سردی سے میرے ہاتھ ٹھنڈے برف بنے ہوتے ہیں…
جی ضرور امی…
غلطی تو میری تھی اور میں ہی غصہ سے چنگیر پہ بھی غصہ نکالنا چاہ رہی تھی؟
،نگاہیں ندامت سے جھکنے لگیں…
قارئین !!!
یہ تو محض دو واقعات تحریر کیئے ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ اکثر غلطی ہماری اپنی ہوتی ہے…
ہم بات سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوتے…
کسی کی بات کا مقصد نظر انداز کر دیتے ہیں…
اور محض بدگمانی اور عدم برداشت کی وجہ سے پھٹ پڑتے ہیں…
جس کا نقصان بھی ہمیں ہی برداشت کرنا پڑتا ہے…
سو زندگی میں مثبت بھی سوچتے رہنا چاہیئے…کبھی کسی کی چھوٹی موٹی غلطی کو نظر انداز بھی کر دینا چاہیئے…
ہاں جہاں واضح غلطی کی اصلاح کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو وہاں خاموش رہنا بھی غلط ہے…
لیکن کسی کو محض وہم و گمان سے نشانے کی زد پر نہیں رکھنا چاہیئے…
تھوڑی سی برداشت،صبر تحمل،بردباری بسا اوقات بڑے نقصانات سے بچا لیتے ہیں اور کبھی انہی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے شرمندگی و نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے…
ہر بات کو جوش کے آئینہ میں ہی دیکھنے کی بجائے کبھی ہوش کا آئینہ بھی سامنے رکھنا چاہیئے…
مجھے یاد آیا کہ پچھلے دنوں میں نے کسی گروپ میں ایک پوسٹ فارورڈ کر دی جس میں مردوں کی گھریلو مصروفیات کا مزاحیہ جائزہ تھا… جو کہ ہمارے مردوں کی اکثریت کا رویہ بھی ہے…نظر سے گزری تو دلچسپ لگی۔۔۔ جبکہ میرا اصول زیادہ تر صرف اپنی تحریر ہی فارورڈ کرنا ہے تو ایک گروپ ممبر نے(نامعلوم بہن ہیں کہ بھائی؟) نے کمنٹ کیا کہ آپ لوگوں کو صرف ایکٹروں کے انداز ہی گروپ میں بھیجنا پسند ہیں کچھ تو…… کرو وغیرہ۔
اب اگر میں چاہتی تو اس بلینک کو پُر کر سکتی تھی کہ شرم کرو،حیا کرو یا خیال کرو وغیرہ
یعنی ان کا مطلب کیا تھا؟
تو بات طول پکڑ لیتی،بحث لمبی ہو جاتی…حالانکہ اُس تحریر میں نہ تو ایکٹرز کا تذکرہ تھا اور نہ ہی میرا مدعا…
جبکہ بعض اوقات گروپ میں کچھ چیزیں بالخصوص وڈیوز وغیرہ ناگوار بھی گزرتی ہیں لیکن گروپ میں موجود سبھی قابلِ احترام ممبرز کی رائے اور فکر یا پیغام کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے…یہ بات تو سردست یاد آ گئی تو وضاحت کر دی ہے…
بات ہم اپنے رویوّں میں تبدیلی کی کر رہے ہیں کہ جب تک ہم خود کو نہیں بدلتے…
اَنا کو کم نہیں کرتے…
کسی کی سوچ اور رائے کا احترام نہیں سیکھتے…
اور محض بدگمانی اور تنقید کے تیروں کی برسات جاری رکھتے ہیں تو کسی بھی سفر کا مزہ ادھورہ رہ جاتا ہے…
ہم اس کی لذت و چاشنی سے محروم رہ جاتے ہیں…
محدود نظریات کے حامل بن جاتے ہیں
چاہے وہ گھر ہو یا دفتر…
فورمز ہوں یا ایوان…
ہم تنہائی کا شکار ہونے لگتے ہیں کیونکہ ہم سب کو اپنی شخصیت اور سوچ کے آئینہ میں نہیں ڈھال سکتے ہمارے ذمہ بہترین نصیحت حکمت کے ساتھ پہنچا دینا ہے…!!!
کبھی کچھ برداشت کر جانا…
صبر کا گھونٹ پی جانا…
بے پرواہ بن جانا بھی اس زندگی کے حُسن کو مذید چار چاند لگا دیتا ہے…
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو کوئی صبر کی عادت ڈالے اللّٰہ تعالٰی اسے صبر دے دیتا ہے اور کوئی عطا صبر سے زیادہ بہتر اور کشادگی والی نہیں…”
(صحیح مسلم)۔
جب ہم صبر و برداشت کا دامن تھام لیتے ہیں تو لاریب ہمارا ذہن وسیع،ظرف بلند اور دل کشادہ ہو جاتے ہیں…!!!!!








